علی جبران :
ممنوعہ فنڈنگ ضبطگی کیس میں شکاری خود شکار ہونے جارہا ہے۔ اس طویل نو سالہ کیس میں ذمہ داران کو سزا سنائے جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ جرم پچھلے برس ثابت ہو چکا۔ اب سزا کا تعین ہونے جا رہا ہے۔ اس سے پہلے صرف پی ٹی آئی سے شوکاز نوٹس کے جواب کا رسمی قانونی تقاضا پورا کر ایا جانا ہے۔ جواب نہیں بھی آتا تو منجھی ٹھونکنے کی تیاری مکمل ہے۔
اس رسمی قانونی تقاضے کو لے کر تحریک انصاف پچھلے ایک برس سے کھیلتی رہی۔ سوچ یہ تھی کہ جیسے وہ دیگر مقدمات میں تاخیری حربے استعمال کر کے انجام سے راہ فرار اختیار کرتی رہی۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں بھی یہی چال کارگر رہے گی۔ اس حکمت عملی کے تحت کیس کو طوالت دی جاتی رہی۔ تب نہ 9 مئی جیسے واقعات کا گمان تھا نہ توشہ خانہ کیس میں پی ٹی آئی کو اتنے بڑے فیصلے کا اندازہ تھا۔ اس وقت تک وہ اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کو تصور کر رہی تھی۔ لہٰذا بھرپور کوشش تھی کہ کیس کو عام انتخابات تک کھینچا جائے۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کا خیال تھا کہ سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو جائے گا۔ یوں ممنوعہ فنڈنگ کیس بھی دفن ہوجائے گا۔
انگریزی کہاوت ہے کہ اندازے مصیبت کی ماں ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ یہی ہوا۔ چال الٹی پڑچکی ہے۔ تحریک انصاف سمجھتی رہی کہ وہ الیکشن کمیشن کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ لیکن دراصل اس بار اس کے ساتھ کھیلا جارہا تھا۔ اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے بتاتے چلیں کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں بھی پی ٹی آئی آپ اپنے دام میں آچکی ہے۔ جیسا کہ توشہ خانہ فوجداری کیس میں ہوا۔ موکلوں نے بتایا ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے میں، جو انتہائی نزدیک ہے، فنڈز کی ضبطگی یقینی ہے۔ ساتھ ہی عمران خان کی ایک بار پھر نااہلی اور پارٹی پر پابندی بھی خارج از امکان نہیں۔
دو اگست دو ہزار بائیسں کو الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا تھا کہ پی ٹی آئی پر ممنوعہ فنڈنگ لینے کا جرم ثابت ہو چکا ہے۔ تاہم قانونی تقاضے کے تحت قصور وار کو سزا سنائے جانے سے پہلے شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ تاکہ پی ٹی آئی کے وکلا کو اپنے کلائنٹ کے دفاع میں حتمی دلائل اور شواہد پیش کرنے کا پورا موقع فراہم کیا جائے۔ اگر وکلا نوٹس کے جواب میں الیکشن کمیشن کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو جان خلاصی ممکن ہے۔ بصورت دیگر الیکشن کمیشن ممنوعہ فنڈنگ سے متعلق ملکی قوانین کے مطابق سزا سنا دے گا۔ قانونی ماہرین کی اکثریت کے بقول اس کیس میں پی ٹی آئی کی بچت مشکل ہے۔
ایک برس پہلے سنائے جانے والے الیکشن کمیشن پاکستان کے فیصلے کے بعد حتمی مرحلے کو مکمل ہونے میں زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سے دو ماہ کا عرصہ درکار تھا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کا تحریری جواب پی ٹی آئی کے وکلا نے جمع کرانا تھا۔ جس کے بعد فیصلہ آجانا تھا۔ لیکن یہ مرحلہ شیطان کی آنت کی طرح طوالت اختیار کرتا چلا گیا۔ ہر سماعت پر پی ٹی آئی کے وکلا کا ایک ہی موقف ہوتا تھا کہ اسے جواب داخل کرانے کے لئے مز ید وقت دیا جائے۔ کیونکہ اس نے اپنے دفاع میں کچھ ضروری دستاویزات جمع کرنی ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی ہر بار ’’آخری موقع‘‘ دینے کی تنبیہ کے بعد سماعت ملتوی کردی جاتی۔ یہ ’’آخری موقع‘‘ اتنی بار دیا گیا کہ پی ٹی آئی کے مخالفین الیکشن کمیشن کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے۔ پی ٹی آئی خوش تھی کہ اس کے تاخیری حربوں کی چال کامیاب جارہی ہے۔ لیکن دراصل وہ جال میں پھنس رہی تھی۔ اس بات کا علم اس وقت ہوا جب ’’امت‘‘ نے اس کیس سے جڑے مختلف کرداروں سے آف دی ریکارڈ گفتگو کی۔ جو کہانی سامنے آئی۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا‘‘۔
گزشتہ برس پی ٹی آئی پر ممنوعہ فنڈنگ کا جرم ثابت ہونے کے بعد بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ آئندہ چند ہفتوں میں سزا کا تعین کردیا جائے گا اور بظاہر الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی ایسا عندیہ مل رہا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب ملک کی سب سے بڑی عدالت میں پی ٹی آئی کے ہمدرد تصور کئے جانے والے بعض جج صاحبان پوری طرح متحرک تھے۔
ایسے میں خیال کیا گیا کہ اگر ممنوعہ فنڈنگ میں ملوث پی ٹی آئی کے سربراہ اور دیگر کو سزا سنادی جاتی ہے جو کہ ناقابل تردید دستاویزی شواہد کے سبب یقینی ہے تو اپیل کی صورت میں پی ٹی آئی کو اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف مل سکتا ہے۔ کیونکہ ان عدالتوں کے بعض ججز کے بارے میں عمران خان کے ہمدرد ہونے کا تاثر بڑا گہرا ہے۔ چنانچہ ستمبر تک انتظار کی حکمت عملی اختیار کی گئی کہ اہم ریٹائرمنٹ ہوجائے یا اس کا وقت قریب آجائے۔ یو ں پی ٹی آئی کو ’’آخری موقع‘‘ ملتا رہا اور پارٹی کے وکلا اسے اپنی کامیابی سمجھتے رہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ القادر ٹرسٹ، سائفر، توشہ خانہ اور نو مئی کے کیسوں میں ممنوعہ فنڈنگ کیس کہیں گم ہو کر رہ گیا۔ عوام کے ذہن سے بھی یہ کیس قدرے محو ہوگیا تھا۔ لیکن درحقیقت تحریک انصاف کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے دن گنے جارہے تھے۔ ایسا انصاف جس پر شب خون مارے جانے کا خدشہ نہ ہو۔ اب یہ گھڑی آچکی ہے۔
ممنوعہ فنڈنگ ضبطگی کیس میں الیکشن کمیشن نے ایک بار پھر تحریک انصاف کو ’’آخری موقع‘‘ فراہم کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ وہ بائیسں اگست کو شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرادے۔ بصورت دیگر دستیاب ریکارڈ کی بنیاد پر حتمی فیصلہ جاری کردیا جائے گا۔ چلمن کے پیچھے ہونے والی گفتگو سے معلوم ہوا ہے کہ یہ صرف انتباہ نہیں۔ بلکہ اس بار پی ٹی آئی کے لئے واقعی یہ ’’آخری موقع‘‘ ہے۔ اگر پی ٹی آئی کے وکلا نے مقررہ تاریخ پر جواب جمع کرانے کے بجائے حسب سابق راہ فرار اختیار کی تو بائیسں اگست کو ہی ممنوعہ فنڈنگ ضبطگی کیس کا فیصلہ سنایا جاسکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ اگلی ایک دو سماعتوں میں قصہ پاک ہوجائے گا۔ اس وقت تک ریٹائرمنٹ قریب ہوگی یا ہوچکی ہوگی۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ متعلقہ برسوں کے دوران پی ٹی آئی نے جتنی بھی ممنوعہ اور غیر ملکی فنڈنگ حاصل کی۔ یہ سارا پیسہ ضبط کرلیا جائے گا۔ فنڈنگ کی ضبطگی یقینی ہے۔ جبکہ پارٹی پر پابندی اور ایک بار پھر عمران خان کی نااہلی بھی خارج از امکان نہیں۔ الیکشن کمیشن ایکٹ دو ہزار سترہ کے سیکشن دو سو چار کے سب سیکشن چار کے تحت اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی سیاسی جماعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز اکھٹے کیے ہیں تو جتنی بھی رقم پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئی ہے۔ اس کو بحق سرکار ضبط کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔
غیر ملکی کمپنیوں یا حکومتوں سے فنڈز حاصل کرنے والی جماعت پر پابندی بھی عائد کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اس کیس کے فیصلے میں یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ اکائونٹس کی تفصیلات کے حوالے سے پارٹی کے چیئرمین عمران خان کا بیان حلفی جھوٹا تھا۔ یوں ان کے خلاف آئین پاکستان کے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت مقدمہ چلانے کے تمام قانونی لوازمات موجود ہیں۔ واضح رہے کہ اسی شق کے تحت نواز شریف اور جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا گیا تھا۔ فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں یقینا پی ٹی آئی اعلیٰ عدالتوں میں جائے گی۔
لیکن ذرائع کے مطابق الیکش کمیشن نے کیس اتنا مضبوط بنایا ہے کہ ممکنہ فیصلے کو ریورس کرنا بادی النظر میں مشکل ہوگا اور اس وقت تک عمران خان کو بے مثال ریلیف دینے یا اس کا سبب بننے والا ’’مسیحا‘‘ گھر جاچکا ہو گا یا جانے والا ہوگا۔ اس کیس میں پی ٹی آئی کے دوسری طرف کھڑے ایک نقطہ داں کے بقول توشہ خانہ کیس میں وکلا کی غلط حکمت عملی نے عمران خان کو پھنسایا۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں بھی یہی ہونے جارہا ہے۔ اگر پی ٹی آئی کے وکلا تاخیری حربوں کے بجائے اس کیس کا فیصلہ اپنے ’’مسیحا‘‘ کے دور میں ہونے دیتے تو شاید اپیل میں پی ٹی آئی کو پہلے جیسا ناقابلِ یقین ریلیف مل جاتا۔ لیکن سیانا بننے کے چکر میں یہ ایڈوانٹج ضائع کردیا گیا۔