ایف آئی اے نے 60 مقدمات درج کر کے ملک بھر سے 85 ملزم پکڑ لیے،غیر ملکی سرغنہ بھی شامل ہے، فائل فوٹو 
ایف آئی اے نے 60 مقدمات درج کر کے ملک بھر سے 85 ملزم پکڑ لیے،غیر ملکی سرغنہ بھی شامل ہے، فائل فوٹو 

حرام خور قرض ایپس قانون کے نرغے میں آگئیں

عمران خان :
ایف آئی اے نے پاکستان میں آن لائن قرض فراہم کرنے والی کمپنیوں اور ایپس کے خلاف تحقیقات میں بڑی پیش رفت کرتے ہوئے 100سے زائد ایپس اور کمپنیوں کے 225 سے زائد بینک کھاتے منجمد کردیئے۔ مذکورہ اکائونٹس میں تقریباً 20 ارب روپے کی رقوم موجود ہیں۔ تفتیش میں اب تک 120 کے قریب غیر قانونی کاروبار کرنے والی کمپنیوں اور ایپس کو شامل تفتیش کرتے ہوئے 60 مقدمات درج کر کے 85 ملزمان کو ملک بھر سے گرفتار کیا گیا ہے۔ جن میں ایک غیر ملکی سرغنہ بھی شامل ہے۔ جبکہ 100 سے زائد انکوائریوں پر تاحال کام جاری ہے۔

’’امت‘‘ کو ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے آن لائن سودی قرضے کا غیر قانونی کاروبار کرنے والی کمپنیوں اور ایپس مالکان کے خلاف تحقیقات میں اب تک سامنے آنے والے شواہد کی روشنی میں اسٹیٹ بینک حکام کو 225 کے لگ بھگ بینک کھاتوں کی تفصیلات ارسال کی گئیں۔ اور ان بینک کھاتوںکو فوری منجمد کرنے کی درخواست کی گئی۔ تاکہ تحقیقات مکمل ہونے تک مذکورہ اکائونٹس سے رقوم دیگر بینک کھاتوں میں منتقل نہ کرائی جاسکیں اور نہ ہی انہیں کیش کرایا جاسکے۔

تحقیقات میں اب تک سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن سے ملنے والی رپورٹ کی روشنی میں 120 غیر قانونی ایپس کو شامل تفتیش کیا گیا ہے۔ یہ بینک کھاتے ملک بھر کے مختلف نجی بینکوں کی برانچوں میں کھولے گئے جنہیں شہریوں سے رقوم کے لین دین کے لئے استعمال کرنے کے ساتھ ہی مذکورہ ایپس اور کمپنیوں کے مالکان نے تنخواہوں اور دیگر اخراجات کی مد میں استعمال کیا۔ انہی اکائونٹس کے ذریعے ملزمان کے درمیان آپس کے لین دین بھی کئے گئے۔

اطلاعات کے مطابق مذکورہ اکائونٹس میں لگ بھگ 20 ارب روپے کے بینک بیلنس کا سراغ لگایا گیا ہے، جسے مرکزی بینک نے ایف آئی اے کی درخواست پر منجمد کردیا ہے۔ تحقیقات میں اب تک120 کے قریب غیر قانونی کاروبار کرنے والی کمپنیوں اور ایپس کو شامل تفتیش کرتے ہوئے60 مقدمات درج کرکے 85 ملزمان کو ملک بھر سے گرفتار کیا گیا ہے۔

ان میں گلبرگ لاہور سے گرفتار ہونے والا غیر ملکی سرغنہ جیان لی یانگ بھی شامل ہے جو آن لائن لون ایپ کے ذریعے فراڈ کرنے والوں کا سربراہ ہے۔ ملزم 10 ماہ سے پاکستان میں یہ کام کر رہا تھا۔ اس دوران اس نے کئی پاکستانی شہریوں کواس کام کیلئے ملازم رکھا ہوا تھا۔ واضح رہے کہ جولائی میں تحقیقات شروع ہوتے ہی ’’امت‘‘ میں شائع ہونے والی پہلی تفصیلی اسٹوری میں نشاندہی کی گئی تھی کہ آن لائن قرضہ فراڈ کے غیر قانونی کاروبار میں کئی غیر ملکی بھی شامل ہیں جو تکنیکی معاونت دے رہے ہیں اور انہوں نے رقوم بٹورنے کے لئے مقامی ایجنٹوں کو رکھا ہوا ہے۔

تفتیش میں اب تک مجموعی درج ہونے والے 60 مقدمات مین سے 11 مقدمات ایسے ہی غیر ملکی سرغنوں کو نامزد کرکے درج کئے گئے ہیں۔ جن کے حوالے سے تلاش اور گرفتاری کا کام جاری ہے۔ جبکہ وزارت داخلہ کے ذریعے ان کے متعلقہ ملک کے حکام کو تفصیلات ارسال کردی گئی ہیں۔جبکہ 100 سے زائد انکوائریوں پر تاحال کام جاری ہے۔

اطلاعات کے مطابق یہ تحقیقات رواں برس جولائی میں آن لائن فنانس کمپنی’’سرمایہ مائیکرو فنانس‘‘ کی ایپ ایزی لون سے قرض لینے والی رالپنڈی کے شہری مسعود کی خودکشی کے بعد شروع کی گئیں۔ جس کے لئے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے محسن بٹ کی ہدایات پر سائبر کرائم ونگ راولپنڈی اسلام آباد کے ڈپٹی ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ چوہدری عبدالرئوف کی سربراہی میں ٹیم قائم کی گئی۔

ابتدائی طور پر سرمایہ مائیکرو فنانس کمپنی سمیت دیگر ملوث کمپنیوں کے اسلام آباد اور روالپنڈی میں موجود 4 دفاتر کو سیل کرکے فارنسک آڈٹ اور چھان بین کے لئے کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ قبضے میں لیا گیا۔ جبکہ کمپنیوں کے ٹیکنیکل، ایڈمن اور فنانس کے اسٹاف سمیت شہریوں کو دھمکی آمیز کالیں کرکے بلیک میل کرنے والے 20 سے زائد ملزمان کو حراست میں لیا گیا اور 10 مقدمات درج کیے گئے۔

بعد ازاں سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن سے ملک بھر میں غیر قانونی کاروبار کرنے والی ایپس اور رجسٹرڈ ایپس کا ڈیٹا لے کر تفتیش کا دائرہ وسیع کیا گیا اور ملک بھر میں سائبر کرائم ونگ کے تحت 4 بڑی ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ جبکہ تحقیقات کو جلد منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن، اسٹیٹ بینک اور ایف آئی اے افسران کو مل کر کام کرنے کی ہدایات دی گئیں۔ تاکہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں ایک جوائنٹ لیژن ٹاسک فورس قائم کرکے مطلوبہ ریکارڈ فوری حاصل کرکے فوری کارروائیاں کی جاسکیں۔

سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن سے حاصل کردہ رپورٹ سے معلوم ہوا کہ ملک بھر میں صرف 10 ایسی مالیاتی کمپنیوں کی ایپس ہیں جو نان فنانشل کمپنیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔ تاہم ان کے عملی طریقہ کاروبار میں بھی کئی قوانین کی کئی سنگین خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں، جن میں شہریوں کے موبائلوں میں موجود نجی تصاویر، وڈیوز، رابطوں کے نمبرز اور دیگر حساس فیملی ڈیٹا تک رسائی اور اسے بلیک میلنگ کے لئے استعمال کے لئے علاوہ شہریوں کو آن لائن قرضے کی پیچیدہ شرائط اور غیر معمولی شرح سود سے لاعلم رکھنے جیسی خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ رجسٹرڈ ایپس میں گولڈ لیون فنانشل سروسز پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی کی (اسمارٹ قرضہ) ایپ، جینگل کریڈ ڈیجیٹل فنانس پرائیویٹ لمیٹڈ کی (پیسہ یار) ایپ، مائیکو کریڈ فنانشل سروس پرائیویٹ لمیٹڈ کی (ادھار پیسہ) ایپ، ہمراہ فنانشل سرو س لمیٹیڈ کی (ضرورت کیش) ایپ، سیڈ کریڈ فنانشل سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ کی (بروقت ایپ)، ابھی پرائیویٹ لمیٹڈ کی (ابھی)لون ایپ، کیشیو فنانشل سروسز کی (معاون) لون ایپ، سرمایہ مائیکرو فنانس کی ( ایزی لون) ایپ اور تیز فنانشل سروسز کی لون ایپ شامل ہیں۔

ایس ای سی پی کے اسی ڈیٹا سے معلوم ہوا تھا کہ 100 سے زائد ایسی غیر قانونی ایپس بھی متحرک ہیں جو رجسٹرڈ نہیں تھیں اور غیر قانونی طور پر کاروبار کر رہی تھیں۔
تفتیش میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ ان آن لائن قرضہ کمپنیوں کے دفاتر میں ایسے کال سینٹر ہیں جہاں سے شہریوں کو ان کے حساس نجی ڈیٹا کو استعمال کرکے دھمکی آمیز کالز کی جاتی تھیں۔ اور انہیں ذہنی اذیت دے کر بلیک میل کر کے اصل قرضہ کی رقم سے کئی گنا زائد وصول کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے شہری ایک قرض اتارنے کے لئے دوسری ایپس سے قرضہ لیتے رہے اور یوں ہزاروں کے قرض لینے والے چند ہفتوں میں غیر معمولی شرح سود کی وجہ سے لاکھوں کے مقروض ہوئے اور کمپنی مالکان اربوں روپے غریب اور مجبور پاکستانی شہریوں سے نچوڑتے رہے۔

دوسری جانب ایف آئی اے اور سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے مذکورہ 120 غیر قانونی کمپنیوں کی ایپس سے شہریوں کو بچانے کے لئے گوگل کمپنی کو مسلسل خطوط میں ان کے غیر قانونی کاروبار کے ثبوت فراہم کردیئے جس پر گوگل پلے اسٹور سے ان 120 ایپس کو ڈیلیٹ کردیا گیا ہے۔ جبکہ ان ایپس کو چلانے والوں کے پاکستان میں کوائف اور بینک اکائونٹس کی چھان بین شروع کردی گئی ہے۔

ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں ان غیر قانونی کمپنیوں کے سودی کاروبار کے شواہد کو اسٹیبلش کرنے کے بعد منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت کارروائیاں کی جائیں گی، جس کے لئے پیپر ورک شروع کردیا گیا ہے۔ کیونکہ ایسے شواہد آئے ہیں کہ بھاری رقوم شہریوں سے نچوڑ کر حوالہ ہنڈی اور غیر قانونی طریقے سے زر مبادلہ میں تبدیل کرکے بیرون ملک منتقل کی گئی ہے۔ اس کے لئے منجمد بینک بیلنس اور ملزمان کی جائیدادوں کا سراغ لگا کر انہیں ضبط کرکے ریکوری کی جا رہی ہے۔