اگرلوگ اپنی پسند کے لیڈر منتخب نہ کر سکیں تو جمہوریت بے معنی ہو جاتی ہے، فائل فوٹو
اگرلوگ اپنی پسند کے لیڈر منتخب نہ کر سکیں تو جمہوریت بے معنی ہو جاتی ہے، فائل فوٹو

صدرعلوی کے ٹویٹ نے کئی سوالات کھڑے کر دیے

امت رپورٹ :
آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل سے متعلق صدر عارف علوی کے ٹویٹ نے جہاں کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ وہیں یہ ٹویٹ خود ان کے گلے بھی پڑ سکتا ہے۔ اس نوعیت کے معاملات کو سمجھنے والے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جاتے جاتے صدر مملکت نے جو پنڈورا بکس کھولا ہے۔ وہ اتنی آسانی سے بند نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ اتوار کے روز صدر عارف علوی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر (ایکس) پر جاری اپنے ایک بیان میں یہ کہہ کر ہلچل پیدا کر دی کہ وہ اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر کہتے ہیں کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بلز پر دستخط نہیں کئے۔ اپنے ٹویٹ میں صدر علوی کا مزید کہنا تھا کہ ’’میں ان قوانین سے متفق نہیں تھا۔ میں نے اپنے عملے سے کہا تھا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کردیں۔ تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔ تاہم مجھے پتہ چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔ لہٰذا میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے‘‘۔

صدر عارف علوی کے اس ’’معافی نامے‘‘ نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ اس کا ذکر کرنے سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ دونوں بلز کے قانون بننے کی اہمیت کیا ہے۔ اور فوری طور پر اس سے کون متاثر ہو رہا ہے۔ دراصل خاص طور پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ہونے والی بعض ترامیم کی زد میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر سمیت وہ سب آرہے ہیں جن کے خلاف سائفر کیس میں مقدمات درج ہوچکے ہیں اور مزید ہوں گے۔ کیونکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی بعض شقوں میں ایسی ترامیم کی گئی ہیں، جن سے سزائیں پہلے سے سخت ہوگئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدر علوی کے ٹویٹ کا سب سے زیادہ دفاع پی ٹی آئی اور اس کے وکلا کر رہے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ صدر علوی کے اس انکشاف کے بعد کہ انہوں نے مذکورہ دونوں بلز بغیر دستخط کیے واپس بھیج دیے تھے، یہ بلز قانون نہیں بن سکے ہیں۔ لہٰذا انہیں دوبارہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کرانا ہوگا۔

وہیں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے کئی رہنمائوں اور وکلا کے مطابق چونکہ صدر علوی نے آئین کے مجوزہ طریقے کے برخلاف دونوں بلز واپس نہیں بھیجے، جس کے تحت بل واپس بھیجتے وقت وجہ بتائی جاتی ہے۔ جبکہ صدر علوی کے ٹویٹ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے صرف زبانی کلامی اپنے عملے کو ہدایت کی تھی۔ یوں آئین کا تقاضا پورا نہیں ہوتا۔ چنانچہ اب یہ دونوں بلز قانون بن چکے ہیں۔

صدر علوی کے ٹویٹ سے متعلق پی ٹی آئی، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی آرا کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر خالصتاً آئین پاکستان کو پڑھا جائے تو موخر الذکر کا یہ استدلال درست ہے کہ کسی بھی بل کو واپس بھیجتے وقت صدر مملکت اس کی وجوہات، اپنا اعتراض یا کوئی رائے ضرور دیتا ہے۔ جبکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے ترامیمی بلز کے حوالے سے صدر عارف علوی نے ایسی کوئی ایسی چٹ نہیں لکھی۔ کم از کم ان کے ٹویٹ سے تو یہی واضح ہوتا ہے۔ لہٰذا صدر علوی کے ٹویٹ سے متعلق جو کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

ان میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ چوبیس گھنٹے پہلے میڈیا پر یہ خبر چل گئی تھی کہ صدر عارف علوی نے دونوں بلز پر دستخط کردیئے ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے انکشافاتی ٹویٹ کرنے میں اتنا طویل وقت کیوں لگایا۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ اگر انہوں نے واقعی ان دونوں بلوں کو واپس بھیج دیا تھا توکیا اس کے ساتھ کوئی آبزرویشن دی؟ اور یہ کہ یہ سارا کام زبانی کلامی کیوں کیا گیا یا اس حوالے سے ان کے پاس کوئی تحریری ثبوت موجود ہے؟ کیونکہ ان کے ٹویٹ سے تو ایسی کوئی بات ظاہر نہیں ہو رہی ہے۔

آئین پاکستان کا آرٹیکل پچھتر (ایک) کہتا ہے ’’جب کوئی بل منظوری کے لئے صدر کو پیش کیا جائے تو صدر دس دن کے اندر بل کی منظوری دے گا یا کسی ایسے بل کی صورت میں جومالی بل نہ ہو، بل کو اس پیغام کے ساتھ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں واپس کردے گا کہ بل پر، یا اس کے کسی حکم پر، دوبارہ غور کیا جائے اور یہ کہ پیغام میں کسی ترمیم پر غور کیا جائے۔

جبکہ آرٹیکل پچھتر کی شق (دو) کے مطابق ’’صدر نے کوئی بل مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو واپس بھیج دیا ہو، تو اس پر مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) مشترکہ اجلاس میں دوبارہ غور کرے گی اور اگر اسے مجلس شوری (پارلیمنٹ)، دونوں ایوانوں کے موجود ارکان کی اکثریت رائے دہی اور رائے شماری سے ترمیم کے ساتھ یا بلا ترمیم دوبارہ منظور کرلے، تو اسے دستور کی اغراض کے لئے دونوں ایوانوں کی طرف سے منظور تصور کیا جائے گا اور اسے صدر کو پیش کیا جائے گا اور صدر اس کی منظوری دس دنوں میں دے گا، اس میں ناکامی پر مذکورہ منظوری دی گئی متصور ہوگی‘‘۔

آئین پاکستان کے متعلقہ آرٹیکل سے واضح ہے کہ صدر کسی بھی بل کو واپس بھیجتے وقت اس کی وجہ اور دوبارہ غور کرنے کی آبزرویشن ضرور دے گا۔ اسی نکتے کو لے کر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ صدر علوی نے چونکہ بلز واپس کرنے کی تحریری وجہ یا آبزرویشن ساتھ نہیں لگائی۔ چنانچہ یہ دونوں بل خود بخود قوانین بن چکے ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ خودبخود کسی بل کے قانون بننے کا مرحلہ دوسرے مرحلے میں آتا ہے۔ جب ایک بار صدر مملکت کوئی بل واپس بھیج چکا ہو اور اسے پارلیمنٹ ایک بار پھر منظور کرکے دوبارہ صدر کو بھیج چکی ہو۔ لیکن پی ٹی آئی کی یہ دلیل اس لئے کمزور ہے کہ یہ تب ہی ممکن ہے جب صدر نے پہلی بار بل واپس بھیجتے ہوئے مذکورہ آئین کی ہدایت پر عمل کیا ہو، یعنی واپسی کی وجہ بیان کی ہو۔

صدر عارف علوی کے ٹویٹ سے متعلق آئینی و قانونی بحث اپنی جگہ پر ہے۔ اس اقدام کے سیاسی مضمرات بھی ہوں گے۔ اسلام آباد میں موجود ذرائع کے مطابق صدر عارف علوی نے اپنی ریٹائرمنٹ کے قریب جو پنڈورا باکس کھولا ہے۔ اسے اب بند کرنا ان کے ہاتھ میں نہیں۔ یہ معاملہ الٹا ان کے گلے پڑسکتا ہے۔ واضح رہے کہ صدر عارف علوی اپنی صدارت کی مدت رواں برس 9 ستمبر کو پوری کر رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق یہ قوی امکان ہے کہ صدر عارف علوی نے جو الزام لگایا ہے، اسے ثابت کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر انہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بطور صدرانہیں حاصل استثنیٰ ختم ہوجائے گا۔ اگر صدر عارف علوی ٹویٹ کی شکل میں لگائے جانے والے الزامات کو ثابت نہ کرسکے تو ممکنہ طور پر وہ قانون کے شکنجے میں آئیں گے۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی بھی یہ اشارہ دے چکے ہیں۔ رضا ربانی کا کہنا ہے کہ صدر مملکت کے بیان نے قانون سے زیادہ حقائق پر سوالات اٹھادیئے ہیں۔ حقائق جاننے کے لئے سینیٹ آف پاکستان پر مشتمل انکوائری کمیٹی بنائی جائے۔ صدر اور ان کے اسٹاف کو سینیٹ کمیٹی کے سامنے پیش ہونا چاہئے۔ اگر صدر مملکت حقائق غلط پیش کرنے کے مرتکب پائے جائیں تو ان کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔