عمران خان:
سندھ میں پیپلز پارٹی کے بااثر سمجھے جانے والے سابق وزیر اور رکن اسمبلی مکیش کمار چاولہ کے خلاف کئی طرح کی تحقیقات کا پنڈورا باکس کھل گیا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی گزشتہ تین مسلسل حکومتوں کے دوران متعدد بار وزیر خوراک اور وزیر ایکسائز رہنے والے مکیش کمار چاولہ آمدنی سے زائد اثاثوں کی تحقیقات میں 2018ء کے بعد تیسری بار نیب ریڈار پر آ چکے ہیں۔ مکیش کمار چاولہ کیخلاف تحقیقات کا دائرہ ان کے اہلخانہ، محکمہ ایکسائز کے افسران کے ساتھ ساتھ ان کے فرنٹ مینوں تک وسیع کر دیا گیا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق حالیہ دنوں میں ان کی ایک رہائش گاہ پر مارے گئے چھاپے میں پاکستانی کرنسی کے ساتھ بھاری مقدار میں غیر ملکی کرنسی برآمد ہونے پر فارن ایکسچینج ریگولیٹری ایکٹ کے قانون کے تحت ایف آئی اے کو بھی تحقیقات کا ایک حصہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کیونکہ غیر قانونی ذرائع سے غیر ملکی کرنسی خریدنا اور رکھنا اس قانون کے سیکشن 4 کے تحت سنگین جرم ہے۔ حالیہ تحقیقات کے شروع ہونے پر نہ صرف مکیش کمار چاولہ کیلئے پریشانیاں بڑھ گئی ہیں، کہ وہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک مالی اعتبار سے بلاول ہائوس اور وزیر اعلیٰ ہائوس سے قریب اور با اعتبار سمجھے جاتے رہے ہیں۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ نیب کراچی کی جانب سے سابق وزیر ایکسائز اور سابق وزیر خوراک مکیش کمار چاولہ کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا دائرہ اس وقت ان کے اہل خانہ اور محکمہ ایکسائز کے افسران کے ساتھ ساتھ ان کے فرنٹ مینوں تک وسیع کیا گیا۔ جب نیب کی جانب سے مالی معاملات میں ان کے فرنٹ مین قرار دیئے جانے والے ایک پرائیویٹ شخص حسن علی شریف کے حوالے سے انکوائری کا آغاز کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق حسن علی شریف کے حوالے سے نیب کراچی کو معلوم ہوا کہ وہ وزیر ایکسائز مکیش کمار چاولہ کے لئے صوبائی محکمہ خوراک میں کسانوں سے گندم کی خریداری، گندم کی خریداری کے امدادی نرخ مقرر کرنے، گندم کی سرکاری گوداموں کو سپلائی، سرکاری خزانے سے کسانوں کو رقوم کے اجرا، آٹا ملوں کو گندم کی سپلائی، اس کیلیے رقوم کی وصولی اور رقوم کے اجرا کے ساتھ محکمہ میں تبادلے و تقرریوں، کرپشن کے معاملات میں انکوائریوں اور محکمہ جاتی کارروائیوں کے معاملات دیکھتے رہے ہیں۔
اسی دوران محکمہ خوراک میں گندم اور آٹے کے حوالے سے اربوں روپے کے گھپلوں کی باز گشت رہی۔ تاہم مکیش کمار چاولہ بدستور اہم پوزیشن پر براجمان رہے۔ جبکہ صوبے میں گنے کی کاشت، شوگر ملوں کو گنے کی فراہمی اور کسانوں کو گنے کی امدادی قیمتوں کو یقینی بنانے کیلئے بھی حسن علی شریف صوبائی سسٹم کا حصہ سمجھے جانے والے ایک کاروباری گروپ کے ساتھ مکیش کمار چاولہ کی جانب سے شامل رہے۔
اس دوران حسن علی شریف صوبائی ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ موٹر رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے افسران خصوصی طور پر ڈپٹی ڈائریکٹر وحید شیخ کے ذریعے ایک پورے منظم نظام کے ساتھ منسلک رہے۔ جس میں تبادلے، تقرریوں، بھرتیوں، کرپشن انکوائریوں کے معاملات دیکھنے کے ساتھ ساتھ جائیدادوں کے ٹیکس نظام میں وصولیوں، کروڑوں روپے کے عوض شراب کے درجنوں اسٹوروں کے لائسنسوں کے اجرا، سپلائی اور خلاف قوانین فروخت کے ساتھ گاڑیوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے بھی معاملات تھے۔ اسی طرح محکمہ ایکسائز کے نارکوٹکس کنٹرول بورڈ کے کروڑوں روپے کے بجٹ، منشیات کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے بھی تمام معاملات انہیں کے پاس رہے۔ جس میں انہی ڈپٹی ڈائریکٹر وحید شیخ کا تعاون حاصل رہا۔
ذرائع کے بقول فرنٹ مین پرائیویٹ پرسن حسن علی شریف کے بینک اکائونٹس کی چھان بین، ان کے اور ان کے خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کے ساتھ ہی ڈپٹی ڈائریکٹر وحید شیخ اور ان کے اہلخانہ کے بینک اکائونٹس اور اثاثوں کی جانچ پڑتال بھی کی جا رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے نیب کی منظر عام پر آنے والی دستاویزات کے مطابق حالیہ دنوں میں تحقیقات کیلیے نیب نے مشترکہ تحقیاتی ٹیم بناتے ہوئے سابق وزیر اور ان کے فرنٹ مینوں کو طلبی کا نوٹس بھیجا۔ ذرائع کے مطابق انکوائری میں سابق وزیر کے قریبی افراد کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ مکیشن چاولہ، ان کے اہل خانہ، فرنٹ مینوں کی جائیدادوں کی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔ اسی مراسلے میں نیب کی جانب سے صوبائی محکمہ ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ موٹر رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر وحید شیخ کو بھی متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ نیب ٹیم کے سامنے پوچھ گچھ کے لئے طلب کر لیا گیا ہے۔ مراسلے کے مطابق یہ تحقیقات پرائیویٹ شخص حسن علی شریف کے حوالے سے شروع کی گئی ہیں۔ جسے فرنٹ مین قرار دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ مکیش کمار چاولہ پیپلز پارٹی کے سندھ میں گزشتہ ایک دہائی سے محکمہ ایکسائز اور محکمہ خوراک کے حوالے سے اہم اور با اثر وزیر سمجھے جاتے رہے ہیں۔ ان کے سابق صدر اور بلاول ہائوس سے روابط انتہائی مستحکم رہے ہیں۔ جبکہ سندھ کے صوبائی سسٹم کے حوالے سے بھی ان کا نام مالیاتی اعتبار سے اہم ہے۔ مکیش کمار چاولہ کے حوالے سے نیب میں پہلی تحقیقات نون لیگ کے دور حکومت میں 2016ء کے دوران کیمروں کی خریداری میں بھاری کرپشن الزامات پر شروع ہوئیں۔ جنہیں 2018ء کے وسط میں اس وقت بند کر دیا گیا تھا۔ جب سندھ حکومت کے دیگر اہم وزیروں اور اراکین اسمبلی سابق صوبائی وزیر قانون ضیاء لنجار کے خلاف اثاثہ جات بنانے کا کیس سابق وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال کے خلاف نیب کیس، میر منور تالپور اور اویس مظفر کے خلاف آمدن سے زائد جائیداد اور ناجائز اثاثہ جات کے کیس، سابق وزیر تعلیم پیر مظہرالحق کے خلاف 13 ہزار غیر قانونی بھرتیوں کا 5 ارب روپے کی کرپشن کا کیس اور سابق ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی منظور قادر پر 30 ارب کی کرپشن کیس ایک ساتھ نیب میں بند کیا گیا۔
ذرائع کے بقول اس کے بعد 2021ء کے وسط میں دیگر تمام سابق وزرا اور اراکین اسمبلی کو چھوڑ کر صرف مکیش کمار چاولہ کے خلاف ایک بار بھر نیب میں آمدنی سے زائد اثاثوں اور کرپشن کا کیس کھولا گیا۔ جس میں ہوبہو ایسا ہی مراسلہ جاری کیا گیا۔ جیسا گزشتہ ہفتے جاری کیا گیا ہے۔ 2021ء میں جاری نیب مراسلے میں بھی کہا گیا تھا کہ پرائیویٹ شخص حسن علی شریف کے خلاف کرپشن کی نیب انکوائری جاری ہے۔ اسی سلسلے میں صوبائی وزیر اور ان کے اہلخانہ کے اثاثوں اوران کے ناموں پر قائم کمپنیوں اور بینک اکائونٹس کی تفصیلات سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن سے طلب کی گئی تھیں۔ اس مراسلے میں بھی ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمن ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن وحید شیخ اور ان کے اہلخانہ کا ریکارڈ مانگا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں تمام ریکارڈ آنے کے باجود حیرت انگیز طور پر تحقیقات پر ریفرنس قائم کرنے کے بجائے اس کو دبا دیا گیا تھا۔
ذرائع کے بقول حالیہ انکوائریاں اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ جس میں اداروں کی جانب سے ان شخصیات کے خلاف کارروائیاں کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جن کے حوالے سے ثبوت سامنے آگئے ہیں کہ انہوں نے سندھ میں صوبائی سطح پر گزشتہ 15 برسوں میں اپنے اپنے منظم اور مضبوط سسٹمز قائم کرلئے ہیں۔ جس میں انہیں مالیاتی مفادات کی وجہ سے مکمل سیاسی سرستی حاصل ہے۔
اسی سلسلے میں 10 اگست کو پی ڈی ایم حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے حوالے سے اراکین اسمبلی اور افسران و عہدیداران سے متعلق نو فلائی لسٹ میں نام شامل ہونے کی غیر مصدقہ اطلاعات سامنے آئیں۔ یہ فیصلہ حالیہ سی سی آئی میٹنگ سے پہلے کیا گیا۔ مذکورہ نو فلائی لسٹ کی سرکاری سطح پر کہیں سے تصدیق نہیں کی گئی۔ تاہم کراچی سے اسلام آباد تک اس کی بازگشت محسوس کی جاتی رہی۔
ان اطلاعات کو اس وقت تقویت ملی۔ جب کراچی میںصوبائی محکمہ خوراک، ایکسائز، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، ایس بی سی اے، ایم ڈی اے، کے ڈی اے کے ساتھ ہی ضلع کیماڑی میں چلنے والے اسمگلنگ کے منظم مالیاتی سسٹمز سے جڑے سرکاری افسران، فرنٹ مین اور سیاسی شخصیات کو فہرست میں شامل کیا گیا۔ اس کے بعد گزشتہ 15 دنوں میں سندھ پولیس کے وزیر اعلیٰ ہائوس کے قریب سمجھے جانے والے ایس ایس پی فدا حسین جانوری، صوبائی سسٹم کے اہم فرد اے جی مجید، شرجیل میمن سمیت دیگر کے حوالے سے اطلاعات موصول ہوئیں کہ انہیں بیرون ملک جاتے ہوئے کراچی ایئر پورٹ پر روک لیا گیا اور طویل پوچھ گچھ اور بات چیت کے بعد ایک اعلیٰ سطح پر ہونے والے رابطوں کے بعد انہیں جانے کی اجازت دی گئی۔