ارشاد کھوکھر:
سندھ میں نگراں حکومت کے قیام کو بارہ دن گزر چکے ہیں۔ اس کے باوجود بھی ابھی تک اہم انتظامی عہدوں پر پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت میں منظور نظر رہنے والے افسران کا راج برقرار ہے۔ اس کا سبب الیکشن کمیشن کے جاری کردہ احکامات ہیں، جس کے تحت ہر قسم کے تقرر و تبادلے پر پابندی لگادی گئی تھی۔ تاہم بتایا گیا ہے کہ یہ معاملہ دو تین روز میں حل ہونے کا اکان ہے۔ اس سلسلے میں کل (بدھ کو) الیکشن کمیشن کے حکام اور چیف سیکریٹری سندھ کے درمیان اہم اجلاس طے ہے۔
نگراں حکومت نے تمام ڈویژنل کمشنرز، ڈی آئی جیز، تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز، ایس ایس پیز، انتظامی محکموں کے سیکریٹریز سمیت سینکڑوں افسران کی تقرری و تبادلوں کے لئے فہرستیں تیار کرلی ہیں۔ دوسری جانب ہر دور میں اہم عہدوں پر براجمان رہنے والے بااثر افسران نے نگراں دور حکومت میں بھی اپنی سیٹیں برقرار رکھنے کے لئے بھاگ دوڑ شروع کردی ہے۔ جبکہ نگراں صوبائی وزرا متعلقہ محکموں میں اپنی مرضی کے افسران تعینات کرانے کے خواہشمند ہیں۔
نگراں وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نقوی کی جانب سے 17 اگست کو اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سندھ میں عملی طور پر نگراں حکومت قائم ہوگئی تھی۔ بعد ازاں 19 اگست کو پہلے مرحلے میں دس افراد نے نگراں صوبائی وزراء کی حیثیت سے حلف لیا۔ جس کے بعد سندھ انتظامیہ اور پولیس میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کا فیصلہ کیا گیا اور اس حوالے سے فہرستوں کی تیاری کا کام شروع ہوگیا تھا تاہم یہ معاملہ اس وقت التوا کا شکار ہوگیا جب الیکشن کمیشن پاکستان نے 15 اگست کو جاری کردہ لیٹر کے ذریعے نگراں صوبائی حکومت کو اس بات کا پابند بنایا کہ ایک بار کمیشن کی مشاورت سے افسران کی تقرری و تبادلے کرلیے جائیں اور پھر ہر قسم کے تقرر و تبادلوں پر پابندی عائد کی جائے۔ ایسے میں اگر کوئی خالی عہدہ ہو یا کسی عہدے پر افسران کی تقرری و تبادلوں کو ضروری سمجھا جائے تو اس کے متعلق الیکشن کمیشن سے پیشگی اجازت لی جائے۔
ذرائع نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے مذکورہ احکامات کی روشنی میں نگراں وزیراعلیٰ سندھ نے چیف سیکریٹری سندھ محمد فخر عالم کو ہدایت کی کہ الیکشن کمیشن سے رجوع کرکے یہ درخواست کی جائے کہ 15 اگست کو تقرری و تبادلوں پر عائد کردہ احکامات واپس لے کر نگراں صوبائی حکومت کو معمول کے مطابق تقرر و تبادلے کرنے کی اس وقت تک اجازت دیدے، جب تک عام انتخابات کرانے کا شیڈول جاری نہیں ہوتا۔ کیونکہ موجودہ نگراں سیٹ اپ دو یا تین ماہ سے آگے جاتا دکھائی دے رہا ہے ۔
عام انتخابات کرانے سے قبل الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیاں بھی کرنی ہیں۔ جس کے لئے خود الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ اس کے لئے تین سے چار ماہ درکار ہوں گے۔ جب نئی حلقہ بندیاں ہوجائیں تو ظاہر ہے کہ پھر اس کو مدنظر رکھ کر عام انتخابات کا شیڈول جاری کیا جائے گا۔ لہٰذا ابھی سے اگر تقرر و تبادلوں اور نئے ترقیاتی منصوبوں پر پابندی عائد ہوگی تو انتظامی حوالے سے کئی مسائل جنم لیں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ نگراں وزیراعلیٰ کے مذکورہ احکامات کی روشنی میں چیف سیکریٹری سندھ نے الیکشن کمیشن کے حکام سے رابطہ کیا تھا اور ان کے درمیان 25 اگست یعنی گزشتہ جمعہ کو اسلام آباد میں ملاقات ہونی تھی لیکن چیف سیکریٹری سندھ کی عدالت طلبی کے باعث وہ اجلاس منسوخ ہوگیا۔ اب اس حوالے سے کل بدھ کے روز اسلام آباد میں اجلاس شیڈول ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں ہونے والے رابطوں کے دوران الیکشن کمیشن کے حکام نے فی الحال یہ موقف اختیار کیا ہے کہ تقرر و تبادلوں پر عائد کردہ پابندی کے متعلق وہ اپنے احکامات واپس نہیں لیں گے۔ اور نگراں صوبائی حکومت کو افسران کے جو تقرر و تبادلے کرنے ہیں ان کی فہرستیں الیکشن کمیشن کو فراہم کریں جس کو مدنظر رکھ کر صوبائی حکومت کو تقرر و تبادلے کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ یوں موجودہ نگراں حکومت کے قیام کے بارہ دن گزرنے کے باوجود یہ معاملہ تاحال لٹکا ہوا ہے۔ یہ توقع کی جارہی ہے کہ آئندہ دوروز کے اندر بڑے پیمانے پر افسران کی تقرر و تبادلوں کا سلسلہ تیز ہوجائے گا۔
نگراں صوبائی حکومت نے تقرر و تبادلوں کے حوالے سے اپنی حتمی تجاویز تیار کرلی ہیں۔ جن میں سندھ کے تمام تیس اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز ، ایس ایس پیز ، ایس پیز، سو سے زائد تحصیلوں کے اسسٹنٹ کمشنرز، تمام چھ ڈویژن کے کمشنرز، ڈی آئی جیز، تمام ریجن کے افسران کے ساتھ انتظامی محکموں کے سیکریٹریز ، تمام اتھارٹیز کے ڈائریکٹر جنرلز، مختلف محکموں کے ڈائریکٹرز، چیئرمین اینٹی کرپشن و دیگر عہدے شامل ہیں۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ نگراں صوبائی وزراء بھی متعلقہ محکموں میں اپنے سفارشی افسران کی تعیناتی کے خواہشمند ہیں۔ اس سلسلے میں جو فہرستیں تیار کی گئی ہیں اس میں نگراں صوبائی وزرا کی تجاویز کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔
سندھ انتظامیہ کے اہم ذرائع نے بتایا کہ یہ بات تمام محکموں کے انتظامی سربراہان کے علم میں ہے کہ ان کا تبادلہ متعلقہ محکموں سے یقینا ہوجائے گا۔ جس کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے اپنا تبادلہ ہونے سے قبل فیلڈ کے عہدوں پر اپنے من پسند افسران کی تقرر و تبادلے کرنا شروع کئے تھے۔ جس کے باعث نگراں صوبائی حکومت کے احکامات پر چیف سیکریٹری سندھ کی منظوری سے سیکریٹری سروسز کی جانب سے تمام محکموں کے انتظامی سربراہان کو ایک مراسلہ جاری کیا گیا جس میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ تمام فیلڈ افسران کی تقرر و تبادلوں پر تاحکم ثانی پابندی عائد ہے۔ اس لیے تمام محکمے فیلڈ افسران کی تقرر و تبادلوں سے اجتناب کریں۔ ذرائع نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ فیلڈ افسران کی تقرر و تبادلوں پر پابندی عائد رہے گی بلکہ یہ پابندی اس لئے عائد کی گئی ہے کہ اکھاڑ پچھاڑ کے بعد تمام محکموں میں جو نئے انتظامی سربراہان تعینات ہوں گے ان کے توسط سے صرف فیلڈ افسران کی تقرر و تبادلے کیے جائیں گے۔
سندھ حکومت کے اہم انتظامی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس مرتبہ نگراں سیٹ اپ میں افسران کی تقرری و تبادلوں کے حوالے سے ماضی کی کہانی نہیں دہرائی جائے گی کہ صرف ایک محکمے یا ایک ضلع یا ایک ڈویژن سے کسی افسر کو ہٹاکر کسی اور اہم محکمے یا ڈویژن و ضلع کے اہم عہدے پر تعینات کیا جائے۔ اس حوالے سے افسران کی تقرر و تبادلوں کی جو فہرست تیار کی گئی ہے اس میں متعلقہ تمام افسران کے سروس ریکارڈ کی چھان بین بھی کی گئی ہے کہ ماضی میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کون سے افسران کن اہم عہدوں پر مسلسل براجماں رہے ہیں۔ اور کون سے افسران اہل ہونے کے باوجود بھی نظر انداز ہوتے رہے ۔
ذرائع کا دعویٰ تھا کہ خاص طور پر پولیس میں پی ایس پی کیڈر اور انتظامیہ میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس سے تعلق رکھنے والے کئی اعلیٰ افسران کی خدمات وفاق کو واپس کرکے ان کی جگہ نئے افسران کی خدمات طلب کی جائیں گی۔ تاہم اہم معاملہ صوبائی کیڈر کے انتظامی و پولیس افسران کا ہے۔ کیونکہ مذکورہ کیڈر کے افسران وفاق یا کسی اور صوبے میں تعینات نہیں ہوسکتے۔ اور سندھ میں پہلے ہی ضرورت سے کم افسران ہیں۔ اس لئے صوبائی کیڈر کے افسران بھی اہم عہدوں پر تعینات ہوں گے لیکن اس میں وہ افسران جو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اہم عہدوں کے مزے لیتے رہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ انہیں متعلقہ گریڈ کے ایسے عہدوں پرتعینات کیا جائے جہاں ان کا زیادہ اثررسوخ نہ چل سکے۔