گستاخانہ مواد کی روک تھام کیلیے سائبر کرائمز تھانوں میں خصوصی ٹیمیں تعینات کردی گئیں، فائل فوٹو
 گستاخانہ مواد کی روک تھام کیلیے سائبر کرائمز تھانوں میں خصوصی ٹیمیں تعینات کردی گئیں، فائل فوٹو

ایک برس کے دوران 200 سے زائد گستاخ گرفتار

عمران خان:
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی ملک گیر کارروائیوں میں ایک برس کے دوران سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد پھیلانے والے دو سو سے زائد گستاخوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ گرفتار ہونے والے بد بختوں سے جہاں توہین اسلام اور مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخیوں پر مشتمل انتہائی شر انگیز اور اشتعال کن مواد بر آمد ہوا، وہیں یہ انکشاف بھی ہوا کہ راندہ درگاہ ہونے والے ان معلونوں میں عالم دین اور مفتی کی سند رکھنے والے کچھ افراد، چند نام نہاد نعت خواں اور بعض مزارات کے سجادہ نشین بھی شامل ہیں۔ جب کہ جرم ثابت ہونے پر ایک ملعونہ سمیت 9 ملعونوں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔

ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ہاتھوں ملک کے مختلف شہروں اور علاقوں سے پکڑے جانے والے ان ملزمان کے کیس انتہائی تیزی سے عدالتوں میں چلائے جا رہے ہیں۔ جس کے لیے تمام صوبوں میں موجود ایف آئی اے کے 15 تھانوں میں خصوصی ’’بلاسفیمی‘‘ سیل قائم کردیے گئے ہیں جن کے تفتیشی افسران صرف گستاخانہ مواد شیئر کرنے والوں کے خلاف ہی تحقیقات کے لئے مختص کیے گئے ہیں۔

’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی اطلاعات میں معلوم ہوا ہے کہ 4 روز قبل ایف آئی اے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر کراچی کی ٹیم، سوشل میڈیا پر گستاخانہ اور اشتعال انگیز مواد پھیلانے والے ملزمان کا سراغ لگانے کے بعد ان کی گرفتاریوں کیلئے سکھر ریجن میں گئی۔ جہاں 4 مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر 4 ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔ ملزمان میں محمد عدنان، جنید خان اور محمد بابر شامل ہیں۔ ان ملزمان کے حوالے سے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے بتایا گیا کہ ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل نے مقدس ترین ہستیوں کی شان میں گستاخی اور قرآن پاک کی بے حرمتی پر مبنی ویب سائٹس چلانے والے 4 ملزمان کو گرفتار کیا۔ چاروں بد بخت ملزمان نے اللہ تعالی، رسول پاکؐ، امہات المومیننؓ، صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ کی شان میں گستاخانہ مواد شئیر کرنے میں ملوث رہے ہیں۔

حکام کے مطابق ملزمان مختلف ویب سائٹس، فیس بک اور انسٹا گرام اکاؤنٹس استعمال کررہے تھے۔ ملزمان نے فیس بک پر مختلف خواتین اور دیگر ناموں سے فیس بک اکاؤنٹس بنا رکھے تھے۔ ملزمان ان اکاؤنٹس پرگستاخانہ مواد پرمبنی مختلف اسکیچز، تصاویر اور ویڈیوز اپلوڈ کرتے تھے۔ ایف آئی اے سائبرکرائم حکام کے مطابق ملزمان ان اکاؤنٹس پر متنازع مواد اپ لوڈ کرتے تھے۔ حکام کے مطابق ملزمان کی گرفتاریاں مختلف شکایت گزاروں کی درخواستوں پر انکوائری کے بعد عمل میں لائی گئی ہیں۔ گرفتار ملزمان کے موبائل فونز کی فارنسک چھان بین کی جا رہی ہے۔ ملزمان سے رابطے میں موجود دیگر ایسے بدبختوں کے کوائف حاصل کرکے ان کی فہرست بھی بنائی جا رہی ہے، تاکہ ان کے خلاف کارروائی کو آگے بڑھایا جاسکے ۔

اس ضمن میں مزید معلوم ہوا کہ مذکورہ گروپ بھی اسی وسیع نیٹ ورک کا حصہ ہے، جس کے خلاف 2022ء میں ملک بھر میں انکوائریوں کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ یہ نیٹ ورک اس وقت سوشل میڈیا کے ذریعے گستاخانہ مواد پھیلانے کے لئے ملک بھر میں سرگرم ہے۔ یہ معاملہ اس قدر سنگین صورتحال اختیار کرگیا ہے کہ کئی معصوم شہری بشمول خواتین، پڑھے لکھے نوجوان اور کم عمر لڑکے، لڑکیاں کی ان کی کارروائیوں کا ہدف بن رہے ہیں۔

ایف آئی اے ذرائع کے مطابق 2021ء میں اس نیٹ ورک کے حوالے سے ملی معلومات ابتدائی معلومات اور درخواست پر 2022ء میں ایک کارروائی میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد اپ لوڈ کرنے والے 4 ملزمان گرفتار کئے گئے تھے۔ جب ملزمان کے پاس موجود موبائل فونز اور لیپ ٹاپ کی فارنسک جانچ پڑتال کی گئی تو انکشاف ہوا کہ ملزمان بدترین توہین اور گستاخی پر مشتمل مواد ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کر رہے تھے۔ اور ان کے پاس آگے واٹس ایپ اور ٹیلی گرام، فیس بک پر گروپ بنے ہوئے تھے جن میں مجموعی طور پر 32 ہزار ممبران تھے، جن میں سے زیادہ تر شہری ان افراد کے مواد اور سرگرمیوں سے لاتعلق تھے۔

مذکورہ کارروائی اور تفتیش کے بعد اس معاملے پر ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد، ایف آئی اے پنجاب، ایف آئی اے سندھ، ایف آئی اے خیبر پختونخواہ اور ایف آئی اے بلوچستان کے تمام 15 سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹرز یعنی ایف آئی اے سائبر کرائم کے تھانوں میں خصوصی ٹیمیں قائم کردی گئی ہیں۔ اس دوران مذکورہ ملزمان کے خلاف موصول ہونے والی شہریوں کی درخواستوں کو بھی انہی ٹیموں کو بھیجا گیا جس میں ایسے شہری بھی شامل تھے جنہوں نے واٹس ایپ کے گروپوں، فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹا گرام سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر یہ گستاخانہ مواد دیکھا تھا۔

ایف آئی اے کے مطابق بعد ازاں اس اسکینڈل میں سینکڑوں انکوائریاں تمام صوبائی دفاتر میں رجسٹرڈ کرکے ملوث ملزمان کا سراغ لگانے کے لئے ان کے موبائل نمبروں، لوکیشن، انٹر نیٹ آئی پیز اور متعلقہ ویب سائٹ سے ملنے والی معلومات پر کام کیا گیا۔ اس معاملے میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی ٹیموں نے ملک کے مختلف شہروں سے اب تک مجموعی طور پر 200 سے زائدافراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں بھیجا ہے۔ ان ملعونوں میں دینی اسناد رکھنے والے لوگ، ڈاکٹرز، پروفیسرز، انجینئیرز، چارٹرڈ اکائونٹنٹس، وکیل، سرکاری ملازم، پرائیویٹ ملازم، امیر، غریب، ریڑھی بان ، غرض ہر طبقہ اور ہر مسلک کے لوگ موجود ہیں۔ جبکہ 2 ایسے شخص بھی شامل ہیں جن کے پاس مستند مدارس کی جانب سے جاری کردہ عالم دین کی اسناد موجود ہیں۔

انہی انکوائریوں میں گرفتاریوں کے بعد جن9 ملعونوں کو عدالتیں سزائے موت سناچکی ہیں ان میں سید ذیشان، عبدالوحید عرف ایاز نظامی، رانا نعمان رفاقت، ناصر احمد سلطانی، قیصر ایوب، مون ایوب، ظفر بھٹی، ثنااللہ اور عنیقہ عتیق شامل ہیں۔ جبکہ دیگر کیسوں پر کام جاری ہے۔

اس ضمن میں ’’امت‘‘ کو تحریک تحفظ ناموس رسالت پاکستان کے مرکزی عہدیدار حافظ احتشام نے بتایا کہ، سوشل میڈیا پر توہین اور گستاخیوں کی اس نئی لہر کے حوالے سے ایف آئی اے کی کارروائیوں میں ان کی جدوجہد کا عمل دخل بھی موجود ہے۔ کیونکہ 2021ء میں انہوں نے ان ملزمان کی سرگرمیوں کی کئی درخواستیں دے رکھی تھیں جس پر کوئی خاص ایکشن نہیں لیا گیا۔ تاہم 2021ء جون میں جب انہوں نے عدالت عالیہ میں پٹیشن دائر کی تو جسٹس عامر فاروق کی جانب سے ایف آئی اے حکام کو سخت سرزنش کی گئی۔ جس کے بعد کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ، تحقیقات میں گرفتار ملزمان کے بیانات تقریباً ملتے جلتے ہیں۔ یعنی اکثر ملزمان ایسے ہیں جنہوں نے ابتدائی طور پر فحش مواد دیکھنا شروع کیا۔ بعد ازاں گوگل الگورتھم کی وجہ سے ان کو سوشل میڈیا پر زیادہ تر فحش مواد کے ہی لنک آنے لگے، جن پر محرم رشتوں کے حوالے سے فحش مواد موجود ہوتا تھا۔ بعد ازاں یہ خود ان سرگرمیوں میں ملوث ہوئے اور یہ سلسلہ بدترین گستاخی اور توہین تک جا پہنچا۔

گرفتار ملزمان سے تفتیش میں یہ رخ بھی دیکھا گیا کہ آیا کہ یہ کسی بیرونی ایجنڈے، فنڈز یا غیر ملکی ویزوں کے لئے ایسا کرتے ہیں؟ تاہم جب انتہائی پڑھے لکھے اور امیر لوگ بھی سامنے آئے، جن کے پاس پہلے سے دولت اور غیر ملکی شہریت موجود تھی، تو اس پہلو کے حوالے سے ثبوت نہ مل سکے۔