عمران خان :
ملک بھر میں بڑے انڈسٹریز مالکان، سیاسی شخصیات اور ریٹائرڈ و حاضر سروس بیورو کریٹس کے فرنٹ مینوں کے علاوہ کالے دھن کے سرمایہ کاروں میں چھپے ٹیکس چوروں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لئے ایف بی آر کو خصوصی ٹاسک مل گیا۔ قومی خزانے کو کھربوں روپے کا چونا لگانے والوں کی بے نامی، فرضی اور بوگس کمپنیوں کا سراغ لگا کر منی لانڈرنگ کے مقدمات درج کرنے کے لئے ٹیمیں تشکیل دے دی گئیں۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق چند ماہ قبل ایف بی آر کے ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹر نیشنل آڈٹ ان لینڈ ریونیو کی جانب سے بیرون ملک اثاثے رکھنے والے امیرترین افراد کا ڈیٹا ملنے کے بعد ہونے والی چھان بین کے نتیجے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے بیرون ملک غیر منقولہ جائیدادوں پر کیپٹل ویلیو ٹیکس کی وصولی کے لیے ملک کے معروف تاجروں اور بینکرز کے بینک اکائونٹس کو منجمد کرنا شروع کردیا تھا۔ تاہم چند ماہ قبل سیاسی صوررتحال کی وجہ سے اس پر عمل در آمد ممکن نہیں ہوسکا تھا۔ تاہم اب یہ عمل دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ساتھ ہی بیرون ملک یہ کھربوں روپے مالیت کے اثاثے رکھنے والی شخصیات کے ساتھ ملک میں موجود بڑے انڈسٹریزمالکان، سیاسی شخصیات اور ریٹائرو حاضر سروس بیوروکریٹس کے فرنٹ مینوں کے علاوہ کالے دھن کے سرمایہ کاروں میں چھپے ٹیکس چوروںکا سراغ لگانے کے لیے اسی ڈیٹا کو ملک میں موجود افراد کے ڈیٹا کے ساتھ میچ کرنے کے لئے ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹر نل آڈٹ ان لینڈ ریونیو، ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو کے ساتھ ملک بھر کے ریجنل ٹیکس آفسوں اور لارج ٹیکس پیئرز آفسوں کو بھی ٹاسک دے گیا ہے۔
اس طویل اور مسلسل چھان بین کے لئے ٹیمیں بنا دی گئیں ہیں۔ جنہوں نے ملک بھر میں رجسٹرڈ ایسی ہزاروں بوگس، کاغذی اور فرضی کمپنیوں کے کھاتوں کا حساب کتاب شروع کردیا ہے۔ جبکہ مختلف ناموں پر اربوں روپے کا کاغذی کاروبار صرف انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس سے بچنے کے لئے ایف بی آر میں جعلی انوائسز پر ظاہر کیا گیا۔ تاہم ان کی جعلی دستاویزات اصل کمپنیوں اور انڈسٹریز کے لئے ٹیکس چوری میں استعمال کی گئیں۔ اور یہی ٹیکس چوری کرکے کمایا جانے والا کالا دھن زر مبادلہ کی غیر قانونی ترسیل کے ذریعے بیرون ملک کھپایا گیا جس کے اربوں ڈالر کے اثاثے بنائے گئے۔
ایف بی آر انٹیلی جنس، انٹرنل آڈٹ اور مختلف فیلڈ فارمیشنز سے ملنے والی معلومات کے مطابق صرف گزشتہ ہفتوں میں کراچی سے پنجاب اور اسلام آباد تک چلائے جانے والے ایسے 4 بڑے نیٹ ورکس کا سراغ لگایا گیا ہے جن میں فرضی کمپنیوں کے ذریعے 4 کھرب سے زائد کا ناجائز منافع ٹیکس چوری کرکے بڑے انڈسٹریز مالکان اور مل مالکان اور سرمایہ کاروں کا پہنچایا گیا۔ ان کارروائیوں میں جن سیکٹرز میں اب تک ٹیکس چوریاں سامنے آچکی ہیں۔ ان میں بیٹری سیکٹر، آئرن اسٹیل سیکٹر، گارمنٹ سیکٹر، سولر پینل سیکٹر سمیت دیگر شامل ہیں۔ جبکہ اب چینی، آٹا، سگریٹ اور سیمنٹ بنانے والی ملوں کے سیکٹرز کو بھی اس چھان بین میں شامل کردیا گیا ہے۔
مذکورہ کارروائیوں میں گرفتا رہونے والوں میں فیکٹریوں اور کمپنیوں کے مالکان کے ساتھ ہی ایف بی آر کے ماتحت اپنی کمپنیوں کے ملازمین، ٹیکس کنسلٹنٹ وکیل اور سابق ملازمین بھی شامل ہیں جو سہولت کاری فراہم کرتے رہے۔ ان میں ایف بی آر انٹیلی جنس کے ہاتھوں کراچی سے گرفتار ہونے والا ایک ماسٹر مائنڈ وکیل حسن علی بادامی بھی شامل ہے۔
اس کیس کی معلومات کے مطابق اس ضمن میں ہونے والی انکوائری میں ثبوت اور شواہد سامنے آنے پر ڈائریکٹوریٹ جنرل ایف بی آر انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریو نیو کراچی میں رواں برس مئی کے مہینے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس مقدمہ میں ابتدائی طور پر 2 ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ جبکہ مرکزی ملزم ٹیکس کنسلٹنٹ کا بیرون ملک فرار روکنے کے لئے اس کے کوائف اسٹاپ لسٹ میں ڈلوادئے گئے تھے۔ اس مقدمہ کی تفتیش میں جب ملزم معروف ٹیکس وکیل حسن علی بادامی کے سندھی مسلم سوسائٹی کے بنگلے میں قائم ٹیکس کنسلٹنسی کے دفتر پر چھاپہ مار گیا تو انکشاف ہوا کہ گزشتہ 12برسوں سے ٹیکس چوری کا ملک گیر نیٹ ورک چلایا جا تا رہا ہے۔
معروف ٹیکس وکیل حسن علی بادامی کی لا فر م ایچ اے بادامی کے اس دفتر پر ایف بی آر کے چھاپے میں 24 کمپنیوں کی مہریں بر آمد ہوئیں۔ جبکہ مختلف کمپنیوں کی 7 باکس فائلیں اور 14ریکارڈ فائلیں بھی ملیں۔ اسی دفتر سے ملنے والے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور موبائل فانز کی فارنسک چھان بین میں مزید ثبوت اور شواہد بھی حاصل کر لئے گئے۔ بعد ازاں اس کیس پر درج مقدمہ کے عبوری چالان میں اب تک گرفتار 2 ملزمان علی رضا جمانی اور عامر لاٹ کے ساتھ ہی معروف ٹیکس وکیل حسن علی بادامی کو ٹیکس فراڈ کے سرغنہ کے طور پر نامزد کردیا گیا تھا۔
اس اسکینڈل میں تفصیلی چھان بین کے بعد اب تک 7 ارب روپے سے زائد مالیت کے فراڈ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ دستاویزات کے مطابق اس ضمن میں رواں برس مئی میں ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو نے جعلی اور بوگس انوائسز بنا کر سیلز ٹیکس ری فنڈ حاصل کرنے والے مافیا کے خلاف کریک ڈائون کرتے ہوئے ایک کاروباری شخصیت علی رضا جمانی کو گرفتار کیا۔ عدالت سے اس کا ریمانڈ حاصل کرنے کے بعد اس سے تفتیش شروع کی گئی تو ہوش ربا انکشافات ہوئے۔ بعد ازاں گرفتار ملزم کی نشاندہی پر کراچی کے ایک پوش علاقے سندھی مسلم سوسائٹی میں نجی فوڈ چین کے قریب قائم بنگلے میں ٹیکس کنسلٹنٹ حسن علی بادامی کے دفتر پر عدالت سے وارنٹ حاصل کرنے کے بعد چھاپہ مارا تو وہاں سے بھاری مقدار میں جعلی اور کاغذی کمپنیوں کے لیٹر ہیڈ، بوگس انوائسز، مختلف بینکوں میں جمع کرائی گئی بھاری رقوم کی رسیدیں، کمپنیوں کی اسٹییمپ وغیر ہ کے ساتھ ناقابل تردید ثبوت ملے۔ ڈائریکٹوریٹ نے ٹیکس کنسلٹنٹ کا لیپ ٹاپ اور مختلف کمپنیوں کے بینک اکائونٹس کی تفصیلات اور دیگر ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا۔
اسی دفتر سے ایک اور کاروباری شخصیت عامر لاٹ کو گرفتار کیا گیا جو 2002ء سے مختلف اشیا کی در آمد کے کاروبار سے منسلک ہے۔ ڈائریکٹوریٹ ذرائع کے مطابق اسکینڈل میں متعلقہ ریکارڈ کی چھان بین کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ ملک بھر کی بڑی بڑی لمیٹڈ کمپنیاں اور رجسٹرڈ تاجر و صنعت کار اس گروہ سے جعلی انوائسز خریدتے تھے، تاکہ سیلز ٹیکس بچا سکیں۔ ابتدائی طور پر 7 ارب سے زیادہ کی ٹیکس چوری کے کیس سامنے آچکے ہیں۔ تاہم ابھی لیپ ٹاپ اور دیگر سافٹ ڈیٹا کو فارنسک جائزہ لیا جا رہا، اس لئے اسکینڈل کی مالیت کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
ملکی محصولات میں اضافہ کے لئے امیر ترین پاکستانی افراد کے بیرون ملک اثاثوں پر کیپٹل ویلیو ٹیکس وصول کرنے کا دائرہ بڑھا دیا گیا ہے۔ تاہم متعلقہ حکام کو وزارت خزانہ اور ایف بی آر میں یکساں پالیسی کے فقدان سے مشکلات کا سامنا ہے۔ ایف بی آر کو 140 ممالک سے بیرون ملک اثاثے کروڑوں ڈالر کے مساوی اثاثے رکھنے والے پاکستانیوں کا ڈیٹا ملنے لگاہے جوآئندہ تحقیقات میں انتہائی اہم ہوگا۔