ارشاد کھوکھر:
مرتضیٰ وہاب صدیقی اور سلمان عبداللہ مراد کے لئے کراچی کے میئر اور ڈپٹی میئر کے عہدے برقرار رکھنے کیلئے 5 نومبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں یو سی چیئرمین کے عہدے پر کامیابی حاصل کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ بصورت دیگر وہ میئر شپ سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس سلسلے میں اپنے سیاسی اثر رسوخ والے علاقوں میں چار یوسیز کے چیئرمینز سے استعفے دلواکر نشستیں خالی کرالی ہیں۔
تاہم مذکورہ امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد بھی مرتضیٰ وہاب کی میئر شپ کا انحصار عدالتی فیصلے پر ہوگا۔ کیونکہ جماعت اسلامی نے میئر کے انتخابات کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ صرف کراچی کی چار یوسیز نہیں۔ بلکہ صوبہ بھر کے مختلف بلدیاتی اداروں میں الگ الگ کٹیگریز کی 886 نشستیں خالی ہیں۔ جن میں سے 74 نشستوں پر عوام کے ووٹ کے ذریعے انتخاب ہوگا۔ ان میں 9 یوسی چیئرمین، 16 یوسی وائس چیئرمین، 8 ڈسٹرکٹ کونسلوں کے کونسلر، 41 وارڈ کونسلر کی نشستیں شامل ہیں۔ جبکہ 812 مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں۔ جن میں 310 اقلیتی کونسلرز، 176 خواتین کونسلرز، 161 خواجہ سرا، 119 نوجوان اور 16 کسان و مزدوروں کی مخصوص نشستیں شامل ہیں۔
یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے بلدیاتی اداروں کے میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخابات سے قبل بلدیاتی ایکٹ میں یہ ترمیم کر دی تھی کہ وہ افراد جو متعلقہ کونسلز کے ممبر منتخب نہیں۔ وہ بھی مذکورہ عہدوں کیلئے انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ جس کیلئے یہ شرط تھی کہ منتخب ہونے کے چھ ماہ کے اندر وہ اپنے آپ کو متعلقہ کونسل کا کونسلر منتخب کروائیں گے بصورت دیگر وہ میئر یا چیئرمین وغیرہ کے عہدوں کیلئے نااہل ہو جائیں گے۔
اس طرح مرتضیٰ وہاب صدیقی اور سلمان عبداللہ مراد 15 جون کو منعقدہ انتخابات میں میئر اور ڈپٹی میئر تو منتخب ہوگئے۔ لیکن انہوں نے اس سے قبل یوسی سطح پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی وہ مخصوص نشستوں پر کونسلر منتخب ہوسکے تھے۔ اسی لئے ان کیلئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ میئر شپ اور ڈپٹی میئر شپ کے عہدوں پر برقرار رہنے کیلئے 15 دسمبر سے قبل کراچی کی کسی بھی یو سی کا چیئرمین منتخب ہوں۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے صوبہ بھر میں بلدیاتی اداروں کی خالی نشستوں پر 5 نومبر کوضمنی انتخابات کرانے کا شیڈول بھی جاری کر دیا ہے۔ جس کے تحت متعلقہ بلدیاتی اداروں کی نشستوں کیلئے کاغذات نامزدگی بھی جمع کرائے جاچکے ہیں۔ جبکہ کراچی میں اپنا میئر اور ڈپٹی میئر برقرار رکھنے کیلئے پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے زیادہ سیاسی اثر رسوخ والے علاقوں میں پارٹی ٹکٹ پر منتخب یو سی چیئرمینز سے استعفیٰ دلواکر نشستیں خالی کرالی ہیں۔
پیپلز پارٹی نے جن یوسیز کے چیئرمینز کی نشستیں خالی کرائی ہیں۔ ان میں صدر ٹائون کی یوسی 13 ہے۔ یہاں سے پیپلز پارٹی کے کرم اللہ وقاص کامیاب ہوئے تھے۔ ماڑی پور ٹائون کی یوسی 3 سے سیف اللہ نے کامیابی حاصل کی تھی۔ گڈاپ ٹائون کی یوسی 7 سے محمد سلمان میمن کامیاب ہوئے۔ اور ابراہیم حیدری ٹائون کی یوسی 8 سے حیدر علی جاموٹ کامیاب قرار پائے تھے۔ اب ان چار یوسیز میں سے گڈاپ ٹائون کی یوسی 7 پر ڈپٹی میئر سلمان عبداللہ مراد نے چیئرمین کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ باقی تینوں یوسیز کے چیئرمین کے عہدوں پر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب صدیقی نے کاغذات نامزدگی جمع کرادیے ہیں۔
مرتضیٰ وہاب کی جانب سے تین یوسیز میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کوئی بھی رسک لینا نہیں چاہتی۔ کیونکہ پہلے صورتحال کچھ اور تھی۔ جس کے پیچھے یہ حکمت عملی ہے کہ مرتضیٰ وہاب اگر کسی یوسی سے انتخابات ہار بھی جائیں تو خیر ہے۔ ان میں سے کسی ایک یوسی پر کامیابی سمیٹنا ان کیلئے ضروری ہے۔ تب جاکر وہ اپنی میئر شپ برقرار رکھ سکیں گے۔
مرتضیٰ وہاب کی طرح چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل گھوٹکی کے عہدے پر کامیاب ہونے والے سابق معاون خصوصی بنگل خان مہر بھی کونسلر منتخب ہونے سے قبل ہی چیئرمین منتخب ہوگئے تھے۔ ان کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ ضمنی انتخاب میں متعلقہ ضلع سے اپنے آپ کو متعلقہ ضلع سے کونسلر ضلع کونسل کی نشست پر کامیاب کرائیں۔ بصورت دیگر وہ بھی چیئرمین نہیں رہیں گے۔ یہ شرط تمام ایسے افراد کیلئے ہے۔ جو کونسلر نہ ہوتے ہوئے بھی متعلقہ بلدیاتی اداروں کے چیئرمین یا وائس چیئرمین منتخب ہوگئے تھے۔
ضمنی انتخابات میں کامیابی سمیٹنے کے بعد بھی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کیلئے ایک اور امتحان باقی ہوگا۔ جس کا تعلق عدالت سے ہے۔ کیونکہ جب 15 جون کو میئر کراچی اور ڈپٹی میئر کراچی کے عہدوں کیلئے انتخاب ہوا تھا۔ اس وقت 121 مخصوص نشستوں کے ساتھ کے ایم سی کے تمام کونسلرز کی تعداد 366 تھی۔ ایک یوسی میں انتخاب نہیں ہوا تھا۔ اس طرح 366 میں سے میئر شپ پر کامیابی کیلئے کسی بھی امیدوار کو 184 ووٹ درکار تھے۔ ع
ددی اعتبار سے پیپلز پارٹی، نواز لیگ، جے یو آئی ف پر مشتمل حکومتی اتحاد کے کونسلرز کی تعداد 173 تھی۔ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے اراکین کی تعداد 191 تھی۔ دو اراکین کا تعلق ٹی ایل پی سے ہے۔ لیکن میئر اور ڈپٹی میئر شپ کے انتخابات کے دن پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے 30 سے زائد کونسلرز ووٹنگ میں حصہ لینے کیلئے نہیں پہنچے۔ جس کے باعث مرتضیٰ وہاب 171 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے۔
مذکورہ انتخابات کو جماعت اسلامی کے میئر شپ کے امیدوار امیر کراچی جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ مذکورہ انتخاب درست نہیں ہوا اور مرتضیٰ وہاب کو سادہ اکثریت نہیں ملی۔ اس لئے مذکورہ انتخابات کو کالعدم قرار دے کر میئر شپ و ڈپٹی میئر کیلئے ازسرنو انتخاب کرایا جائے۔ اس کا فیصلہ عدالت سے ہونا ابھی باقی ہے۔