امت رپورٹ :
غزہ کی پٹی کے رہائشی 21 سالہ محمد الیوا کو پچھلے ہفتے بمشکل نیند آئی ہے۔ اس کا سبب اسرائیلی بموں اور فلسطینی ایمبولینس سائرن کی آوازیں ہیں۔ اسرائیل 7 اکتوبر سے مسلسل غزہ پٹی پر گولہ باری کر رہا ہے۔
جمعہ کی صبح، وہ اس خبر پر بیدار ہوا کہ اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ کی پٹی میں دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کے انخلا کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ یعنی غزہ کے کل تیئس لاکھ رہائشیوں میں سے تقریباً نصف کو نقل مکانی کا کہا گیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل غزہ پر زمینی حملے کی تیاری کر رہاہے۔ لیکن الیوا، سمجھتا ہے کہ غزہ سے نکلنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
الجزیرہ ٹی وی کے ایک نمائندے سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے الیوا نے کہا ’’جانے کے لئے کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں ہے۔ لہٰذا میں نے کہاں جانا ہے؟‘‘ وہ غزہ شہر کے بہت سے لوگوں میں سے ایک ہے جو کہتے ہیں کہ انہیں کہیں نہیں جانا، یہیں رہنا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے شمالی غزہ کے ایک ملین شہریوں کو کہا ہے کہ وہ جنوب کی طرف انخلا کر جائیں۔
لیکن شمالی غزہ کی رہائشی ایک چھتیس سالہ خاتون وفا القدرہ نے بتایا کہ ’’میں نے انخلا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیونکہ جنوب میں بھی بمباری کی جا رہی ہے۔ میرا خاندان وہاں رہتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ بمباری ایک منٹ کے لیے نہیں رکی۔‘‘ ایک پریس بیان میں حماس کی قیادت نے اسرائیلی حکم کو ’’نفسیاتی جنگ‘‘ قرار دیا ہے۔
حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن عزت الرشیق نے کہا ہے کہ ’’غزہ کے رہائشیوں کو انخلا کی ہدایت فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے زبردستی ہٹانے کی ایک سفاکانہ کوشش کی نمائندگی کرتی ہے۔‘‘ الیوا نے کچھ کزنز اور بہنوں کے ساتھ شجاعیہ میں قیام کیا، جب کہ اس کے خاندان کے کچھ لوگ پناہ گاہوں کے طور پر استعمال ہونے والے اسکولوں یا جنوب میں رشتہ داروں کے پاس چلے گئے ہیں۔
اسرائیلی بمباری کے بعد سے پونے تین لاکھ سے زائد بے گھر افراد نے شمالی غزہ کی پٹی میں فلسطینی پناہ گزینوں کو امداد فراہم کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی کے زیر انتظام 88 اسکولوں میں پناہ حاصل کر رکھی ہے۔ لیکن ان اسکولوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ لوگ مقیم ہیں۔ اسکول میں رہائش پذیر ایک معذور شخص نے، جس کی ٹانگ پانچ سال قبل غزہ کی سرحد پر ہونے والے مظاہروں میں زخمی ہونے پر کاٹ دی گئی تھی، بتایا ’’ایک کمرے میں پہلے سے ہی 50 لوگ موجود تھے۔‘‘
الیوا کا کہنا تھا کہ ’’میں ان کے ساتھ جانا چاہتا تھا، لیکن جگہ نہیں تھی۔ اب اسرائیل سب کو غزہ چھوڑنے کے لیے کہہ رہاہے، لیکن کہاں جائیں؟‘‘ الیوا نے غصے سے کہا ’’کیا گلی میں جا کر کھڑے ہوجائیں؟‘‘ اس دوران ایک زوردار دھماکے کی آواز آتی ہے اور فون کا کنکشن منقطع ہو جاتا ہے۔
اسرائیل کی مسلسل بمباری کے نتیجے میں اب تک چھ سو بچوں سمیت سولہ سو کے قریب غزہ کے رہائشی شہید ہو چکے ہیں۔ جب کہ اٹھارہ سو سے زائد زخمی ہیں۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل سے انخلائ کے حکم کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پیمانے پر لوگوں کی نقل و حرکت کے سنگین انسانی نتائج ہو سکتے ہیں۔
ہزاروں لوگوں کو گاڑیوں اور پیدل جنوب کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا، جو اپنے بچوں اور معمولی سامان کو پکڑے ہوئے تھے۔ ان بے سرو سامان نہتے شہریوں کو بھی اسرائیل نشانہ بنارہا ہے۔ ایسے ہی ایک قافلے پر اسرائیلی حملے میں ستر افراد شہید ہوئے۔ جبکہ غزہ کے اسپتالوں میں ہزاروں زخمی ہیں، جن کے پاس جانے کا آپشن موجود ہی نہیں کہ وہ اس حالت میں سفر سے قاصر ہیں۔ غزہ کے نائب وزیر صحت ڈاکٹر یوسف ابو الریش نے صحافیوں کو ایک پیغام میں غزہ کی پٹی کے سب سے بڑے اسپتال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’الشفاء اسپتال کو خالی کرانا ناممکن ہے۔ دیگر تمام اسپتال بھی زخمی مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں۔‘‘
جنیوا میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ترجمان طارق جساریوچ نے بھی کہا ہے کہ اسپتال سے شدید زخمی مریضوں کو نکالنا ناممکن ہو گا۔ ایسا اقدام ان کے لیے ایک طرح سے موت کی سزا ہوگا۔ ہیومن رائٹس واچ کے سینئر قانونی مشیر کلائیو بالڈون نے کہا ’’انخلا کا حکم درست نہیں۔ اسرائیل کو چاہیئے کہ وہ شہریوں کو نشانہ نہ بنائے اور ان کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے تمام اقدامات کرے۔ عمارتیں اور سڑکیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں، ایندھن کی کمی ہے۔ اور مرکزی اسپتال انخلا کے علاقے میں ہے۔ عالمی رہنماؤں کو اب بات کرنی چاہیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔‘‘