آئی ایم ایف کی جانب سے رقم اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اکاونٹ میں منتقل کی گئی ،فائل فوٹو
آئی ایم ایف کی جانب سے رقم اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اکاونٹ میں منتقل کی گئی ،فائل فوٹو

اہم سی پیک منصوبے میں آئی ایم ایف نے ٹانگ اڑا دی

نواز طاہر:
پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے اہم منصوبے پر آئی ایم ایف کو اعتراضات ہیں۔ جبکہ اس پر عملدرآمد میں تکنیکی تاخیر نے پاکستان ریلویز کے سب سے بڑے منصوبے کی اصل روح کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ تاہم پاکستانی حکام اس میں رکاوٹیں ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور پیش رفت کے لیے چین پہنچ چکے ہیں، جہاں اس کا مناسب حل تلاش کیا جائے گا اور ممکنہ طور پر اس کے ڈیزائن میں بھی کچھ بنیادی تبدیلیاں اور چینی حکام کا مزید تعاون شامل کیا جاسکتا ہے، تاکہ اسے عالمی اداروں کے ممکنہ اعتراض سے بچا کر آگے بڑھایا جاسکے۔

واضح رہے کہ سی پیک منصوبے کے تحت چین اور پاکستان میں 2017ء میں طے پانے والے معاہدے کے تحت کراچی سے پشاور تک برطانوی دور میں مختلف مراحل میں بچھائی گئی مرکزی ریلوے لائن (ایم ایل ون) کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا اور مسافر و مال بردار گاڑیوں کی اوسط رفتار ایک سے پیسنٹھ کلو میٹر تک بڑھانا مقصود ہے۔ جبکہ بعد میں اسی منصوبے کو توسیع دے کر چین تک لے جانے اور سی پیک کو ثمر آور بنانے کے لیے معاونت استعمال کرنا ہے۔ لیکن تاحال اس منصوبے پر کاغذات پر کھینچی جانے والی لکیروں کے ماسوا عملی کام آگے نہیں بڑھ سکا۔ جبکہ حکومت اور ریلوے حکام ملکی ترقی اور ریلوے کی بقا بھی اس منصوبے پر عملدرآمد کو قرار دیتے ہیں۔

ریلوے ذرائع کے مطابق سی پیک پر کام شروع ہونے اور ایم ایل ون منصوبے کی بازگشت کے بعد ریلوے نے معاشی ابتری کے باعث اپنے تباہ حال ٹریک پر توجہ اس بنیاد پر کم کردی کہ ایم ایل ون منصوبے میں یہ ٹریک نیا بن جانے کا امکان ہے یا پھر نیا بننے کے بعد بطور معاون ٹریک اس کی بحالی بھی آسان ہوگی۔ صورتحال جوں کی توں ہے اور اسی دوران کئی حادثات ٹریک ہی کی وجہ سے پیش آچکے ہیں اور سیکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔

ایک ریٹارڈ ریلوے افسر کے مطابق سی پیک منصوبے کے بعد ریلوے نے ریل کے موجودہ ملازمین اور عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوجانا ہے، اور چین کا اس پر قبضہ ہوجانا ہے اس میں تاخیر ہی بھلی۔ یہ ریٹائرڈ افسر اس وقت بھی ریلوے کے ایک ایسے شعبے سے وابستہ ہیں جو نجی حیثیت میں نفع میں ہے لیکن ریل کا دیگر عملہ اور حکام اس فرسودہ خیال کی قطعی نفی کرتے ہوئے اس منصوبے میں تاخیر کی وجہ سیاسی سوچ اور حالات کو ذمے دار قرار دیتے ہیں اور پُرامید ہیں کہ اس منصوبے پر عملی اقدامات اگلے ماہ سے شروع ہو جائیں گے۔

اس ضمن میں ان ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکرٹری ریلوے سمیت ریلوے کے اعلیٰ حکام ان دنوں چین میں موجود ہیں اور اس منصوبے پر پیش رفت اور عملی اقدامات شروع کرنے گئے ہیں اور امید ہے کہ اس کے عملی اقدامات کی کوئی تاریخ بھی سامنے آجائے گی۔ لیکن اسی دوران یہ خدشات بھی ظاہر کیے گئے ہیں کہ یہ منصوبہ مزید تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے اور اس کی اہم وجہ عالمی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف کی شرائط، رولز اور ممکنہ اعتراضات ہیں جو اس وقت تک پاکستان کی حکومت یا کسی بھی صورت میں پاکستان ریلوے پوری کرنے کی پوزیشن میں نہیں کہ اس منصوبے کیلیے درکار مجموعی رقم و قرضے کے 33 فیصد کے مطابق محفوظ و مضبوط مالی گارنٹی فراہم کی جاسکے۔

پاکستان ریلوے کے ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ ایک متبادل فزیبلٹی موجود ہے، جس سے لاگت میں کمی واقع ہوگی اور بنیادی منصوبہ بھی متاثر نہیں ہوگا اور یہ عالمی ادارے کے ممکنہ اعتراضات و قواعد کی زد سے بھی محفوظ رہے گا۔ اس فزیبلٹی پر عملدرآمد سے ایم ایل ون پر اسی سال کام شروع ہو سکتا ہے۔

ان ذرائع کے مطابق ریلوے ٹریک سے ملحقہ زمین پر قبضے واگزار کرانے، یہ زمینیں کمرشل مقاصد کیلئے استعمال کرنے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا مجموعی حجم قرض کے علاوہ منصوبے پر استعمال کرنے سے آئی ایم ایف کے ’’مسائل‘‘ ختم ہوسکتے ہیں۔ جبکہ اس ضمن میں چین کی حکومت کی ذاتی دلچسپی بھی ان اعتراضات کو ختم کرنے میں معاون ہو سکتی ہے۔ جبکہ یہ منصوبہ سی پیک کا ایک حصہ ہے اور سی پیک خود چائنا کا بھی خواب اور منصوبہ ہے اور وہ اس منصوبے کو کسی صورت اسٹیک پر نہیں لگنے دے گا۔

اس وقت تک قرض کی رقم، گارنٹی اور ممکنہ رکاوٹ کی تصدیق کرتے ہوئے ریلوے کے ترجمان نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ معاملہ حل ہونے کے واضح امکانات ہیں اور اسی ضمن میں اس وقت چین میں موجود ریلوے حکام بھی معاملات حل کر رہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے اس منصوبے کے منجمد، ساکت اور ملتوی ہونے کو خارج از امکان قرار دیا۔ اسی ضمن میں یہ اطلاعات بھی ہیں کہ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا دورۂ چین اس منصوبے کے لئے اہم ہوگا اور توقع کی جارہی ہے کہ اس کے معاہدے پر باضابطہ دستخط بھی ہوجائیں گے۔ ساتھ ہی اس منصوبے پر عملی اقدامات شروع ہوجائیں گے ۔

واضح رہے کہ اس منصوبے کے تحت جہاں ٹرینوں کی رفتار، مال برداری کا کاروبار بڑھے گا وہیں اس کے انتظامی امور میں بھی تبدیلی لائی جائے گی اور معمول کا آپریشن خود پاکستان ریلوے جبکہ خصوصی اپریشن ایک الگ کمپنی دیکھے گی۔ اس آپریشن کو الگ دیکھنے پر ریلوے کے ادارے کو اپنے لئے سونے کی چڑیا سمجھنے والے ریٹائرڈ افسران ابہام پیدا کررہے ہیں اور اس منصوبے کو ریلوے کی نجکاری قرار دیتے ہوئے وسوسے پھیلا رہے ہیں۔ ریلوے کے ذمہ دار ذرائع کے مطابق ریلوے کی اپنی معمول کی گاڑیاں بہتر آپریشنل ہوں گی اور اس کا خسارہ کم اور آمدنی بڑھے گی۔

جبکہ کچھ کم فعال اسٹیشن بھی دوبارہ بہتر انداز میں فعال ہوجائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ریلوے کی ورک شاپس میں بھی کام اور استعداد کار میں اضافہ ہوگا، جس سے افرادی قوت کیلئے بھی مزید موقع پیدا ہوں گے۔ سی پیک پر کام کرنے والے ایک سینئر ریٹارڈ افسر نے بتایا کہ ایم ایل ون پرعملدرآمد کے بعد ناقابل یقین حد تک ٹریفک اور مسافروں کی تعداد میں اضافہ ہونا ہے۔

ان ذرائع کے مطابق اس منصوبے سے کئی نجی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے مالکان پریشان ہیں۔ ان کی اسی پریشانی اور سازشوں سے اس منصوبے میں پیش رفت پر سستی اور تاخیر بھی غالب آئی ورنہ اب تک اس پر کام شروع ہوچکا ہوتا اور اب بھی اس میں زیادہ وقت انتظار دکھائی نہیں دیتا۔