سید نبیل اختر : پہلی قسط
میٹرک بورڈ کے امتحانات افسران، ایجنٹوں اور نجی اسکولوں کی انجمنوں کیلیے بھاری رقوم بٹورنے کا ذریعہ ہیں۔ ایک ماہ کے امتحانات کیلیے 5 اقسام کی رشوت وصول کی جاتی ہے۔
پہلی وصولی امتحانی مراکز کے قیام، دوسری وصولی دور بنائے گئے مراکز کی تبدیلی، تیسری وصولی کمرہ امتحان میں موجود طلبا سے، چوتھی وصولی فیل طلبا کو کامیاب قرار دینے اور پانچویں وصولی نتائج کے بعد امتیازی نمبروں کی مارکس شیٹ جاری کرنے کے نام پر کی جاتی ہے۔
بورڈ کے کرپٹ افسران امتحانات میں فرنیچر فراہم کرنے کے نام پر بھی کروڑوں کے جعلی بل کلیئر کراتے ہیں۔ اینٹی کرپشن نے 5 برس کا ریکارڈ مانگ لیا۔ معاملہ نمٹانے کیلئے جوڑ توڑ کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔
میٹرک بورڈ بھی سندھ کے دیگر اداروں کی طرح کرپٹ افسران اور ان کے سہولت کاروں کیلئے سونے کی چڑیا کہلاتا ہے۔ یہاں تعینات ہونے والے ناظم امتحانات، صوبائی وزیر بورڈ اینڈ یونیورسٹیز کو لاکھوں روپے رشوت ادا کرنے کے بعد ہی چارج سنبھالتے ہیں۔
اس ضمن میں ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ میٹرک بورڈ کراچی میں ناظم امتحانات، امتحانات سے قبل اور پھر نتائج سے قبل صوبائی وزیر برائے یونیورسٹی بورڈ کو بھاری رشوت ادا کرکے اپنا تقرر کراتے ہیں۔ ایک سابق ناظم امتحانات کے بقول سابق صوبائی وزیر بورڈ اینڈ یونیورسٹیز کے نمائندے کو 35 لاکھ روپے ادائیگی کے بعد ان کی تعیناتی کے احکامات ان کے ہاتھ آئے تھے۔ ان کے بقول ادائیگی کے بعد چارج سنبھالنے والا افسر امتحانی مراکز کے قیام اور ان کی تبدیلی کے نام پر کروڑوں روپے بٹورنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ جس کیلئے ایجنٹ اور انجمنیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
میٹرک کے سالانہ امتحانات میں فرنیچر کے ٹھیکے میں کروڑوں روپے کی کرپشن کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ کرپشن تعلیمی اداروں کو بھیجے جانے والی کرسیوں اور پانی کے کولرز کی بوگس بلنگ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ گزشتہ برس فرنیچر کے نام پر 5 ٹھیکیدار کمپنیوں کو 6 کروڑ روپے روپے سے زائد کی ادائیگی کی گئی تھی۔ رواں برس 75 لاکھ روپے کا سامان بھجوانے والی کمپنی کامران ڈیکوریشن نے ڈیڑھ کروڑ کا بل بورڈ انتظامیہ کو بھجوا دیا۔
ذرائع نے بتایا کہ میٹرک بورڈ میں امتحانات کے دوران پہلا دھندا سینٹرز لگوانے کا ہوتا ہے۔ جس میں من پسند اسکول میں سینٹر لگوانے کیلئے ثانوی تعلیمی بورڈ کے افسران کروڑوں روپے وصول کرتے ہیں۔ یہ کام ایجنٹوں اور نجی اسکولوں کی ایسوسی ایشنز کی ملی بھگت سے کیا جاتا ہے۔ دوسرا بڑا دھندا امتحانی مراکز میں کرسیاں پہنچانے کے نام پر کیا جاتا ہے۔ جو بورڈ کے افسران اور مخصوص ٹھیکیدار کمپنیوں کی ملی بھگت سے ہوتا ہے۔ بورڈ میں تیسرا بڑا دھندا امتحانات کے نتائج میں تبدیلی کے نام پر کیا جاتا ہے۔ جس میں ناظم امتحانات اور اس کی ٹیم ایک رزلٹ پر کم از کم 5 اور زیادہ سے زیادہ 10 کروڑ روپے وصولی کرتی ہے۔
بورڈ کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار کے بقول نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات سے لے کر نتائج جاری ہونے کے بعد تک وصولی کا حساب لگایا جائے تو یہ رقم 25 کروڑ روپے تک بنتی ہے۔ بعض صحافی بھی امتحانی مراکز لگوانے، نتائج تبدیل کرانے اور امتیازی نمبر سے کامیاب کرانے والوں سے وصولیاں کرتے ہیں۔ ان کے ایجنٹ بھی ہیں۔ جو بورڈ سے براہ راست کام کرانے کے بجائے صحافیوں سے کام کراتے ہیں اور بھاری رقوم کی ادائیگیاں کرتے ہیں۔ اس بار بھی نتائج کی تبدیلی کے معاملے میں ناظم امتحانات کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ جن صحافیوں کے کام مفت میں کریں گے۔ ان کے نام اور رول نمبرز کی فہرست چیئرمین دفتر میں جمع کرائیں گے۔
گزشتہ مہینے کے آخری دنوں میں صوبائی اینٹی کرپشن کی جانب سے سیکریٹری بورڈ کو ایک انکوائری کے سلسلے میں نوٹس بھیجا گیا۔ جس سے بورڈ کے کرپٹ افسران میں کھلبلی مچ گئی۔ اینٹی کرپشن کے سرکل افسر خالد محمود اعوان کی جانب سے بھیجا گیا نوٹس فنڈز میں غبن کے عنوان سے تھا۔ اس میں سیکریٹری بورڈ ڈاکٹر نوید گجر کو پرنٹنگ اینڈ پرچیز کی تفصیلات کے ساتھ اینٹی کرپشن میں پیش ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔ تاہم وہ اینٹی کرپشن افسران کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ ذرائع نے بتایا کہ بورڈ کے افسران مذکورہ انکوائری سے خوفزدہ ہیں۔ کیونکہ فرنیچر کی خریداری اور پرنٹنگ کے جعلی بلوں کا معاملہ کھلا تو کروڑوں کی کرپشن بے نقاب ہوگی جو برسوں سے جاری ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ بورڈ کا ناظم امتحانات اور سیکریٹری بورڈ کے نام پر ہونے والی وصولیوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ امتحانات کے نام پر پہلی وصولی امتحانی مراکز کے قیام کیلئے کی جاتی ہے۔ دوسری وصولی دور بنائے گئے مراکز کی تبدیلی کے نام پر ہوتی ہے۔ تیسری وصولی کمرہ امتحان میں موجود طلبا سے انہیں حل شدہ پرچہ جات کی فراہمی کے نام پر کی جاتی ہے۔
چوتھی وصولی فیل طلبا کو کامیاب قرار دینے، جبکہ پانچویں وصولی نتائج کے بعد امتیازی نمبروں کی مارکس شیٹ جاری کرنے کے نام پر کی جاتی ہے۔ بورڈ ذرائع نے بتایا کہ بلدیہ، لانڈھی، اورنگی اور ملیر ٹاؤن میں بڑے پیمانے پر امتحانی مراکز میں اصل کی جگہ جعلی امیدوار بٹھائے گئے۔ جس میں فی کس 50 ہزار روپے سے 80 ہزار روپے تک وصولی کی گئی۔ تاہم یہ سلسلہ نیا نہیں۔ بلکہ برسوں سے جاری ہے۔
بورڈ آفس کے شعبہ امتحانات میں موجود افسران کے ہر ضلع میں کئی ایجنٹ ہیں۔ جو امتحانات کے سینٹرز لگائے جانے سے پہلے علاقائی اسکولوں سے ایک خاص ریٹ طے کر کے بورڈ کے افسران کو بتاتے ہیں۔ اور ادائیگی کی صورت میں انہیں من پسند اسکول میں سینٹر فراہم کردیا جاتا ہے۔ جہاں نقل کرانے کیلئے طلبا سے وصولی کی جاتی ہے۔ غیر قانونی طور پر بنائے جانے والے امتحانی مراکز کے حوالے سے تحریری شکایات پر بھی کان نہیں دھرے جاتے۔ نتیجتاً بورڈ کی مافیا برسوں سے یہ دھندا دھڑلے سے چلا رہی ہے۔
میٹرک بورڈ کے چیئرمین سید شرف علی شاہ امتحانات کے دوران ہونے والی بے ضابطگیوں کا اعتراف کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض دوستوں اور بعض سیاسی لوگوں کے دبائو کے باعث راتوں رات امتحانی مراکز تبدیل کرنے پڑے تھے۔ جس کی وجہ سے بچوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
معلوم ہوا ہے کہ رواں برس بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی کے پریکٹیکل سیکشن کے ایک افسر نے امتحانی مراکز کی خرید و فروخت کے سابقہ سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ موصوف نے باقاعدہ سوفٹ وئیر تیار کر رکھا تھا۔ جن اسکولوں نے سب سے زیادہ رقم ادا کی تھی۔ ان کے کوڈ ڈالنے پر کمپیوٹر پر اس اسکول کا ڈیٹا سرخ رنگ میں اسکرین پر نمودار ہوتا تھا۔ جس پر یہ افسر اس سے زیادہ بولی کا تقاضہ کرتا تھا۔ 30 ہزار فی اسکول فیکسیشن سے شروع ہوکر یہ ریٹ سات ہزار روپے فی بچہ تک پہنچا۔
بورڈ کے کرپٹ افسران نے زیادہ بولی لگانے پر ڈی ایچ اے میں واقع اسکول کا امتحانی مرکز صفورا گوٹھ میں قائم کردیا۔ نارتھ ناظم آباد کے اسکول کا امتحانی مرکز ملیر، ملیر کے اسکول کا امتحانی مرکز لیاقت آباد، گلشن حدید کے اسکول کا امتحانی مرکز گڈاپ، کورنگی کے اسکولوں کا امتحانی مرکز گلشن میں قائم کردیا گیا۔
ناظم امتحانات اور چئیرمین بورڈ کے علم میں تمام معاملات ہونے کے باوجود وہ خاموش تماشائی بنے رہے۔ راتوں رات پیسوں کے عوض تبدیل کیے جانے والے امتحانی مراکز کو بچے ڈھونڈتے رہ گئے، اور شدید گرمی اور دھوپ میں امتحانی مراکز تلاش کرتے رہے۔ گھروں سے دور اور نامعلوم امتحانی مراکز کی تلاش میں بچے تاخیر سے پہنچے اور ان کو پرچہ حل کرنے کیلئے مطلوبہ وقت میسر نہیں آیا۔ بعض بچے امتحانی مراکز پر پہنچنے سے قاصر رہے اور وہ پرچوں میں شریک نہیں ہو سکے۔
معاملہ میڈیا پر آیا تو چیئرمین بورڈ سید شرف علی شاہ نے کہا کہ میڈیا یہ خبر چلا دے کہ بچوں کو جو امتحانی مرکز قریب ترین ہو۔ وہاں پرچہ دے دیں۔ بورڈ ان کو ایڈجسٹ کر لے گا۔ تاہم اس وقت تک بچے گھروں سے امتحانی مراکز کی جانب نکل چکے تھے۔ امتحانات کے دوران بغیر اطلاع اورنگی ٹائون کا اقرا جدید اسکول کا حب سینٹر سمیت بعض حب سینٹرز تبدیل کرنے سے امتحانی مراکز میں پرچہ بھی تاخیر سے پہنچا۔ (جاری ہے)