بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون :
جب بھی امریکی افواج نے کسی خودمختار ملک پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کیا تو یہ بہانہ تراشا کہ اس کا مقصد مظلوموں کو غیر انسانی شدت پسندوں سے بچانا ہے۔ مزاحمتی قوتوں کو شیطانی قرار دیا گیا، اوران کے خلاف ساتھ دینے والوں کو انعامات سے نوازا گیا۔ لیکن پھر بھی مزاحمتی قوتیں ہمیشہ اکثریت میں تھیں اور امریکی ساتھی اقلیت میں رہے۔ یہ حکمت عملی غزہ کی پٹی میں بھی اپنائی جارہی ہے۔ جہاں حماس حکومت اور اس کے جنگجوؤں کو دہشت گرد بناکر یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ غزہ کے عوام ان کی حمایت پر مجبور ہیں۔
زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
اسماعیل ھنیہ کی قیادت میں حماس 2006ء کے انتخابات میں بڑی اکثریت کے ساتھ منتخب ہوئی۔ جبکہ محمود عباس کی قیادت میں خراب کارکردگی والی پی ایل اے کو شکست ہوئی۔ تاہم اسرائیل کی آشیرباد پر محمود عباس نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور 2007ء میں مغربی کنارے میں اپنی الگ حکومت بنائی۔ حماس نے گڈ گورننس اور ایمانداری کے ذریعے غزہ کے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا اور ان کے دل جیت لیے۔
اس دوران اسرائیل کی مسلسل کوشش رہی کہ کسی طرح غزہ کو حماس سے واپس لیا جائے۔ 2008ء سے 2021ء تک کے عرصے میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے غزہ پر بے رحمانہ زمینی اور فضائی حملے کیے۔ جس میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد بے گناہ لوگ شہید ہوئے اور ان کا بنیادی ڈھانچہ اور ذریعہ معاش تباہ ہوا۔ یہ سب کچھ غزہ کے لوگوں کو حماس سے الگ ہونے پر مجبور کرنے کیلئے کیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور اسرائیل کی بربریت کا مقابلہ کیا۔
حماس اور الجہاد نے غزہ کے دفاع کیلئے عسکری بریگیڈز (القدس اور القسام) تشکیل دیں۔ انہوں نے شمالی غزہ میں سرنگوں کا ایک نیٹ ورک بنایا اور دیسی ساختہ سطح سے سطح تک مار کرنے والے راکٹوں کا ذخیرہ کیا۔ جس کی مدد سے انہوں نے حملہ آور قابض اسرائیلی فورسز کا جم کر مقابلہ کیا ہے۔ ایران نے انہیں بہتر معیار کے ان گائیڈڈ راکٹ فراہم کیے۔ جن میں سے کچھ 2021ء میں اسرائیل کے ناقابل تسخیر فضائی دفاعی نظام میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔
دراصل ایک بار جب غزہ کے لوگوں کو احساس ہوا کہ انہیں عربوں اور عالمی برادری نے چھوڑ دیا ہے اور تقریباً روزانہ انہیں ذبح کیا جا رہا ہے، ان کی عورتوں کی بے حرمتی اور مسجد اقصیٰ کی بے توقیری معمول بن چکی ہے، تو انہوں نے سوچا کہ بھیڑ بکریوں کی طرح بے بس ہو کر مرنے کے بجائے، انہیں کارنر ہو جانے والی بلی کی طرح ایسا شدید جوابی ردعمل دینا چاہیے جو ظالم دشمن کے دل میں دہشت پیدا کر دے۔
7 اکتوبر 2023ء کو حماس کے تقریباً 1500 جنگجوؤں نے زمینی، فضائی اور سمندر سے اسرائیل پر حملہ کیا۔ اسرائیلی افواج کو بھاری نقصان پہنچایا اور متعدد یرغمال بنالئے گئے۔ ان اچانک حملوں نے اسرائیلی فوج کو حیرت زدہ کردیا اور ان کی اعلیٰ کمان چند گھنٹوں تک کوما میں رہی۔
اگرچہ اسرائیلی جیٹ طیاروں نے بغیر کسی رکاوٹ کے غزہ کی آبادی پر شیطانی فضائی حملوں سے اس کا جواب دیا۔ لیکن حماس نے نہ صرف ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے اسرائیلی دفاع کو توڑا بلکہ اسرائیلی عوام میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔ بہت سے لوگ باہر جانے کیلئے بے چین ہیں اور تمام یہودی آبادکار خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ جبکہ نئے آباد کاروں کی آمد رک گئی ہے۔
غزہ کی سرنگیں حماس کو طاقت فراہم کرتی ہیں اور وہاں اسرائیلی یرغمالیوں کو بھی رکھا گیا ہے۔ تاکہ اسرائیلی جیلوں میں قید ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کی رہائی کیلئے انہیں بارگیننگ چپ کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ یہ یرغمالی غزہ پر اسرائیل کی مکمل زمینی کارروائی شروع کرنے میں رکاوٹ کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔
اسرائیلیوں کا اعتماد بحال کرنے کیلئے نیتن یاہو نے اپنی حکومت کو جنگی کابینہ سے بدل دیا ہے اور تین لاکھ ریزرو فوجیوں کے ساتھ زمینی حملے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بظاھر نیتن یاہو نے حماس کے مکمل خاتمے تک جارحیت بند نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
شمالی غزہ میں مقیم باشندوں میں سے گیارہ لاکھ کو 24 گھنٹے کا نوٹس دیا گیا کہ علاقہ خالی کردیں یا مر نے کیلئے تیار ہوجائیں۔ اس حربے کے ذریعے اسرائیلی حکومت کا مشن غزہ کے لوگوں کو حماس کی حمایت سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنا ہے، اور دوسرا غزہ میں سرنگوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرکے حماس کے ہر رکن کو ختم کرنا ہے۔ انخلا کا حکم دے کر اسرائیل چاہتا ہے کہ غزہ کے لوگوں کو گنجان شمالی علاقے سے کھلے اور غیر محفوظ صحرائے سینا میں دھکیل دے، جہاں ان کو زیر کرنا آسان ہوگا۔ یہ حماس کو بھی کمزور بنا دے گا، اور اسرائیل کیلئے اپنی مشینی فورسز کو آزادانہ طور پر چلانے اور سرنگوں کو منظم طریقے سے مسمار کرنا بھی آسان بنائے گا۔
امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ اسرائیل کی مکمل حمایت میں کھڑے ہو گئے ہیں اور غزہ کو تنہا کرنے کیلئے فوری اقدامات کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد غزہ کے تنازع کو مقامی سطح پر رکھنا اور اسے قریبی ممالک میں پھیلنے سے روکنا ہے۔ واشنگٹن پہلے ہی تل ابیب کو 6 بلین ڈالر کا فوجی پیکج دے چکا ہے اور کسی بھی عرب ریاست یا ایران کی طرف سے ردعمل کو روکنے کیلئے اپنے جنگی جہاز بھی خطے میں بھیج چکا ہے۔ بلنکن خلیجی ریاستوں کو غزہ کی حمایت نہ کرنے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے پر راضی یا دباؤ میں لینے کیلئے ایک طوفانی دورے پر ہے۔
بلنکن کو ریاض میں ولی عہد محمد بن سلمان سے ملنے کیلئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑا۔ انہوں نے سعودی ولی عہد کو یقین دلایا کہ امریکہ مشرق وسطی میں اپنی افواج تعینات نہیں کرے گا۔ دوحہ میں بلنکن نے قطر کے امیر سے درخواست کی کہ وہ حزب اللہ کو دوسرا محاذ نہ کھولنے پر آمادہ کریں۔
پینٹاگون نے سینٹ کام کو ہدایت کی ہے کہ وہ ہزاروں ہوا سے سطح پر مار کرنے والے بم اسرائیل کو بھیجنے کیلئے تیار رہے۔ غزہ میں فاسفورس بم گرائے جانے کے بعد اطلاعات ہیں کہ نیتن یاہو کی کابینہ میں شامل شدت پسند غزہ پر نیوٹران بم گرانے پر غور کر رہے ہیں۔
اس سارے معاملے میں امریکا اور برطانیہ کی پشت پناہی اسرائیل کو مظالم پر اکسا رہی ہے۔ امریکی سینیٹر لنزے گرام نے ایران کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے معاملے کو بڑھانے کی کوشش کی تو اس کی تیل کی تجارت منقطع کر دی جائے گی۔ شمالی غزہ کی نگرانی برطانوی انٹیلی جنس کا الیکٹرانک وارفیئر سسٹم کر رہا ہے۔ جبکہ امریکی جیٹ طیارے پورے علاقے کا سروے کر رہے ہیں تاکہ پاکستان، افغانستان، چین اور دیگر جگہوں پر کسی بھی نقل و حرکت کا پتہ لگایا جا سکے۔
اسرائیل کے دونوں سپورٹروں امریکہ اور برطانیہ کو خوف ہے کہ اگر اسرائیل نے حماس کے خلاف زمینی کارروائی کی تو معاملات ان کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ اسی لیے امریکی صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ غزہ پر دوبارہ قبضہ کرنا بڑی غلطی ہوگی۔ خود موساد کے سابق سربراہ نے اسرائیلی رہنماؤں کو خبردار کیا کہ وہ غزہ پر زمینی حملہ نہ کریں اور تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔
اسرائیلی جارحیت پر اب تک او آئی سی اور عرب لیگ کا ردعمل بے حد کمزور ہے اور صورتحال کی سنگینی کے مطابق نہیں ہے۔ اس کی وجوہات یہ ہیں کہ او آئی سی ایک غیر موثر تنظیم ہے۔ جبکہ سعودی عرب کے زیر تسلط عرب لیگ پر خود غرض مفادات کی حکمرانی ہے، اور مسلم دنیا بحیثیت مجموعی تقسیم شدہ گھر ہے جو امریکہ کے اثر و رسوخ میں ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی جارحیت کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج جاری ہے۔ لندن اور کچھ دوسرے مغربی دارالحکومتوں میں بڑے مظاہرے ہوئے۔ غیر مسلموں میں آئرش وزیراعظم نے اسرائیل کی نسل پرستانہ اور فاشسٹ پالیسیوں کی زبردستی مذمت کی۔ سب سے سخت بیان غیر مسلم جنوبی افریقہ کے ایک ممتاز سیاسی رہنما کی طرف سے آیا ہے۔ جس نے کہا ہے کہ تل ابیب میں ان کا سفارت خانہ بند کر دیا جائے گا اور اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے سفارتی، ثقافتی اور اقتصادی روابط منقطع کر دیئے جائیں گے۔ اس پر مسلم ممالک بھی اب کچھ جاگنا شروع ہو گئے ہیں۔ سعودی عرب نے اسرائیل کو سفارتی طور پر تسلیم کرنے کے تیز رفتار عمل کو روک دیا ہے، جو تکمیل کے قریب تھا۔
غزہ پر فلسطینیوں کی حمایت میں کویت کی قرارداد نے امریکی قرارداد کو بھاری اکثریت سے شکست دے دی۔ تیونس نے اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے شہریوں کو جہاد میں حصہ لینے کی اجازت دے دی ہے۔ قطر نے یورپی یونین کو گیس کی سپلائی بند کر دی ہے۔ قطر کے امیر نے کہا کہ جب تک اسرائیل غزہ پر حملہ بند نہیں کرے گا، گیس فراہم نہیں کی جائے گی۔ ایران کے وزیر خارجہ نے پیغام دیا کہ اگر اسرائیل نے اپنی جارحیت بند نہ کی تو خطے میں پہلے سے موجود تمام فریق متحرک ہو جائیں گے۔
اردن نے کہا کہ غزہ کے باشندوں کی زبردستی بے دخلی ناقابل قبول ہوگی۔ وال اسٹریٹ جنرل نے رپورٹ کیا کہ ایران کے پاسداران انقلاب اپنے جہادیوں کو شام کی سرحد کی طرف بھیج رہے ہیں۔ پاکستان سمیت کسی بھی مسلم ملک نے اسرائیل کی حمایت اور حماس کی مذمت نہیں کی۔ چین اور روس نے اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں اور امریکہ کو اس کی مداخلت پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ نصراللہ نے لبنان میں دوسرا محاذ کھولنے اور شام میں پاسداران انقلاب کے ساتھ مل کر تیسرے محاذ کو گرم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ان کے پاس گائیڈڈ میزائلوں اور ممکنہ طور پر ڈرونز کا کافی ذخیرہ ہے۔ لہٰذا مغربی اور مشرقی اطراف سے اسرائیلی شہروں اور گولان کی پہاڑیوں پر مربوط میزائل حملے اسرائیلی دفاعی سسٹم اور اس کے میزائل شکن نظام آئرن ڈوم کیلئے مخمصے کا باعث بنیں گے۔
غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق مشرق وسطیٰ میں ویگنر فورس کی نقل و حرکت دیکھی گئی ہے۔ یمنی، افغان اور دیگر جہادی عناصر مصیبت زدہ غزہ کے لوگوں کی مدد کیلئے تیار ہیں۔ ایسے میں یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ القاعدہ، داعش اور ان جیسے درجنوں دیگر شدت پسند گروپس حماس کی مدد کیلئے رضاکارانہ طور پر آجائیں۔ جبکہ اسرائیلی بمباری کے باوجود حماس اپنی کارروائیوں میں کوئی تبدیلی نہیں لائی ہے۔ اب بھی کچھ اسرائیلی علاقے اس کے کنٹرول میں ہیں۔ اس مجموعی منظرنامے نے اسرائیل کو زمینی حملے کے حوالے سے شش و پنج میں ڈال دیا ہے۔ اسرائیل نے زمینی کارروائی میں تاخیر کا سبب اگرچہ خراب موسم کو قرار دیا ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ موسم ٹھیک ہے اور مستقبل قریب میں موسم کے طوفانی ہونے کا کوئی امکان بھی نہیں۔
روس، چین، ایران اور ترکی کے موقف مستقبل کے واقعات کو شکل دینے کیلئے اہم ہوں گے۔ چونکہ روس اور ترکی کے انتباہ کے باوجود امریکہ صریح طور پر اسرائیل کی مدد کو آیا ہے۔ اس لیے یہ دیکھنا باقی ہے کہ ان ممالک کی اگلا اقدام کیا ہو گا۔