محمد اطہر فاروقی :
کراچی میں خطرناک موسمی وائرس نے بچوں سمیت بڑوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سول اسپتال میں 45 سے 50 فیصد وائرل انفیکشن میں مبتلا افراد ایمرجنسی اور او پی ڈی میں لائے جارہے ہیں۔ قومی ادارہ برائے اطفال میں لائے جانے والے 100 میں سے 40 بچے انفیکشن اور الرجی میں مبتلا ہیں۔ وائرس کی بڑی وجہ موسم کی تبدیلی ہے۔ دن میں موسم گرم اور رات میں ٹھنڈا رہنے سے جسم کا درجہ حرارت معمول سے زیادہ ہوجاتا ہے۔
طبی ماہرین کے بقول اس موسمی وائرس سے بچنے کیلئے متوازن غذا، ٹھنڈے پانی اور مشروبات سے پرہیز اور وائرل سے متاثرہ شخص سے دوری اختیار کریں۔ صفائی کا خیال بہتر رکھیں۔ وائرل بخار کی علامات میں ناک بہنا، کھانسی، متلی، تھکن اور جسم میں درد شامل ہے۔
کراچی میں موسم کی تبدیلی نے بچوں، خواتین اور بزرگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ طبی ماہرین مردوں میں یہ ریشو 50 فیصد، جبکہ بچوں میں 40 فیصد بتا رہے ہیں۔ موسمی تبدیلی سے وائرل بخار، بچوں میں کولڈ انفیکشن کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ شہر میں ہر چھٹا شخص کسی نہ کسی علامت کیساتھ انفیکشن کا شکار ہو رہا ہے۔
’’امت‘‘ نے اس حوالے سے شہر کے بڑے سرکاری اسپتالوں سے اعدادوشمار حاصل کیے تو معلوم ہوا کہ جناح اسپتال میں یومیہ 100 میں سے 40 سے 45 افراد موسمی بخار میں مبتلا لائے جا رہے ہیں۔ جس میں نزلہ، زکام، پیٹ خرابی، الٹی اور نمونیہ جیسی بیماریاں سر فہرست ہیں۔ اس سے قبل 100 مریضوں میں سے محض 10 یا 15 افراد بخار اور نزلہ زکام کے علاج کیلئے آتے تھے۔
سول اسپتال سے کی اسپتال ایمرجنسی اور او پی ڈی میں یومیہ 45 سے 50 فیصد آنے والے افراد میں وائرل بخار کی علامات ہیں۔ زیادہ کیسز ایمرجنسی میں پیٹ کی خرای، پانی کی کمی، الٹی، موشن اور بخار کے ہیں۔ سندھ میں بچوں کے سب سے بڑے اسپتال قومی ادارہ برائے اطفال میں یومیہ 40 فیصد بچے وائرل انفیکشن سے متاثر ہو رہے ہیں۔
ایمرجنسی انچارج کے بقول عام دنوں کے مقابلے میں اس وقت ایسے مریض بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو وائرل بخار کی وجہ سے لائے جا رہے ہیں۔ طبی ماہرین کے بقول جیسے جیسے موسم ٹھنڈا ہونا شروع ہوتا ہے۔ بچوں میں الرجی اور انفیکشن شروع ہو جاتا ہے۔ دن میں موسم گرم اور رات میں ٹھنڈا ہونے سے جسم میں درجہ حرارت متاثر ہوتا ہے۔ خصوصا بچے اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
سول اسپتال میں چائلڈ اسپشلسٹ ڈاکٹر اقبال سومرونے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’اس وقت بچوں میں وائرل بخار تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اسپتال میں روٹین کے مطابق 100 میں سے 30 بچے اسی انفیکشن میں مبتلا لائے جاتے ہیں۔ موسمی تبدیلی کے سبب جسم کے درجہ حرارت اور قوت مدافعت متاثر ہوتی ہے۔ کولڈ انفکیشن سے خصوصا بچوں کوالرجی ہوتی ہے اور اسی سے بخار، نزلہ اور گلا خراب ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ بچوں کو انفیکشن سے بچانے کیلئے سب سے بڑا کام صفائی کا خصوصی خیال کرنا ہے‘‘۔
سول اسپتال کی ایمرجنسی کے انچارج ڈاکٹر قلب حسین کا کہنا ہے کہ ’’وائرل انفیکشن سے 45 سے 50 فیصد افراد متاثر ہو رہے ہیں۔ ہم اپنی پریکٹس کے دوران ایسے مریضوں کا روزانہ علاج کر رہے ہیں جو موسمی بخار سے متاثر ہیں۔ شروع میں جب مریض نزلہ، بخار، کھانسی اور نمونیہ کی علامات کے ساتھ لائے جاتے ہیں تو ہم ان کا علاج الرجی فلو کے طور پر کرتے ہیں۔ بہتری نہ آنے پر پی سی آر ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ جس میں مزید چیزیں واضح ہو جاتی ہیں‘‘۔
جناح اسپتال کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عمر سلطان نے بتایا کہ ’’موسمی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ہوا میں آلودگی بھی بڑھ رہی ہے۔ نزلہ، زکام اور کھانسی وغیرہ میں مبتلا سینکڑوں مریض اسپتال لائے جا رہے ہیں۔ تاہم ان کی حالت زیادہ تشویشناک نہیں ہوتی۔ ان میں اسکول کے بچے اور بزرگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے‘‘۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’اسپتال میں مذکورہ امراض میں مبتلا افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جو افراد ہر سال موسمی تبدیلی سے متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے پھیپھڑے کمزور ہو جاتے ہیں۔ ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ فلو کی ویکسین لگوائیں۔ ان دنوں شہریوں کو اگر اس قسم کی کوئی شکایت ہو تو وہ فوراً ڈاکٹر کو چیک اپ کرائیں۔
بیشتر افراد مرض لاحق ہونے پر خود گھر کے نسخے اور اینٹی بائیوٹک استعمال کرتے ہیں۔ جس سے صورتحال مزید خراب ہو جاتی ہے۔ اس لئے عوام کو اس سے بچنا چاہیے۔ موسم کی تبدیلی کی وجہ سے ہونے والے وائرل بخار کے علاج کا تعین بیماری کی شدت سے کیا جاتا ہے۔ عام طور پر وائرل بخار کی علامات کو دور کرنے اورجسم کا درجہ حرارت کم کرنے کیلیے دوائیں دیتے ہیں۔