نواز شریف کو درپیش چیلنج۔”اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے”

تجزیہ : سجاد عباسی

وطن واپسی پر فقید المثال استقبال اور مینار پاکستان پر کامیاب شو کے ذریعے بظاہر یہی لگتا ہے کہ نواز شریف نے ایوان وزیراعظم کی راہداری کی جانب پہلا قدم بڑھا دیا ہے، جہاں سے 2017 میں انہیں نکالا گیا تھا اور میڈیا کے لیے شجر ممنوعہ قرار دے کر سیاست سے انہیں حرف غلط کی طرح مٹانے کی کوشش کی گئی۔پھر کبھی مائنس ون کی بات کی گئی تو کبھی نون میں سے شین نکالنے کی کوشش ہوتی رہی مگر ان تمام کوششوں میں ناکامی کے بعد بالآخر سیاسی افرا تفری اور بدترین معاشی عدم استحکام کی حالت میں نون کی اجازت کے ساتھ زمام اقتدار” شین” کے حوالے کیا گیا۔

16 ماہ کا یہ اقتدار کسی بھی لحاظ سے نواز لیگ کے لیے سیاسی مارکیٹنگ کا ذریعہ نہیں بن سکتا کہ اس دوران ڈالر کی بے لگام پرواز،بجلی بلوں میں بے تحاشا اضافہ اور آئی ایم کی ہدایت پر غریب کی کمر پر پڑنے والے درے ،نواز لیگ کی سیاسی کمر پر بھاری بوجھ کی طرح ہمیشہ محسوس کئے جاتے رہیں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز لیگ نے پی ڈی ایم حکومت میں قائدانہ کردار لے کر اپنا سیاسی کیپیٹل قربان کیا جس کے عوض اسے آئندہ مدت کے لیے ہموار میدان فراہم کرنے کی ضمانت دی گئی۔اسی کے ثمر کے طور پر آج نواز شریف چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی کے بعد وطن واپس لوٹے ہیں۔

جیسا کہ پہلے کہا گیا، 21 اکتوبر کا استقبال اور تاریخی جلسہ رائے عامہ بنانے میں بڑی حد تک کامیاب ہو گیا ہے اور اگر کوئی سیاسی یا غیر سیاسی انہونی نہیں ہوتی ،تو نواز شریف متوقع طور پر ایوان وزیراعظم کے مکین بنیں گے۔جس طرح ان کے راستے میں حائل قانونی ،عدالتی اور انتظامی رکاوٹیں دور کی گئی ہیں ،متحدہ عرب امارات میں جس طرح انہیں سربراہ حکومت کا پروٹوکول دیا گیا اور پاکستان آمد پر بھی یہی پروٹوکول برقرار رکھا گیا ،اس سے عوامی اور سیاسی حلقوں کو وہ پیغام مل گیا ہے ،جو پہنچانا مقصود تھا۔

اب اگرنواز لیگ اور اس کی حامی قوتوں کی سیاسی اور انتظامی حکمت عملی کامیاب رہتی ہے اور نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بنتے ہیں تو انہیں کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا جن کا ماضی کی 76 سالہ تاریخ میں شاید ہی کسی حکمران کو رہا ہو۔ان میں سے اولین چیلنج پارٹی کو ری آرگنائز کرنا ،اندرونی اختلافات ختم کرنا اور انتخابی میدان کے لیے نواز لیگ کو اس حد تک تیار کرنا ہو گا کہ وه تحریک انصاف کی مقبولیت کوپوری قوت کے ساتھ کاؤنٹر کر سکے جو اس وقت قیادت کی قید اور اپنی بداعمالیوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے،مگر عوامی سطح پر اس کی پذیرائی سے انکار ممکن نہیں۔یہ بات پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ ماضی میں پنجاب نواز لیگ کا سیاسی قلعہ رہا ہے تاہم اب اس قلعے میں ان گنت دراڑیں پڑ چکی ہیں۔

اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ملک کی 62 فیصدآبادی پر مشتمل یہ صوبہ مرکز میں اقتدار کے لیے فیصلہ کن پارلیمانی قوت فراہم کرتا ہے،لہذا پنجاب کو قابو کرنے کے لیے نواز لیگ کو بہت سے پاپڑ بیلنا پڑیں گے۔پی ٹی آئی کے علاوہ پیپلز پارٹی ،اور تحریک لبیک جیسے عوامل نواز لیگ کی راہ میں حائل ہو سکتے ہیں جبکہ اول الذکر دونوں کا ممکنہ اتحاد بھی بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔البتہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی سیاسی قوت سے چھیڑ چھاڑ کئے بغیر پرامن بقائے باہمی کے تحت معاملات آگے بڑھائے جا سکتے ہیں اور یہی فارمولہ کے پی میں مولانا فضل الرحمٰن اور اے این پی وغیرہ کے ساتھ اپنایا جا سکتا ہے۔

یہ تصوراتی سینیاریو تحریک انصاف کو منظرنامے میں شامل کئے بغیر بنتا ہے،جسے ظاہر ہے یکسر خارج کرنا قابل عمل نہیں ہے۔ بلوچستان کا معاملہ البتہ الگ ہے جہاں راتوں رات تبدیلی کی مثالیں موجود ہیں اور یہ صوبہ مخصوص سیاسی و جغرافیائی حالات اور سیاسی حرکیات کے باعث کسی ایک جماعت کی مٹھی میں کبھی نہیں رہا۔ الیکشن میں جانے کے لیے ایک مضبوط سیاسی نعرے یا بیانیے کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ نواز لیگ نے سیاسی انتقام یا بدلے کو ایک طرف رکھ کر معیشت کی بحالی اور ملکی خوشحالی کا بیانیہ اپنایا ہے جو اس وقت ملک کی سب سے بڑی اور بنیادی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے نواز لیگ کا ماضی کا ریکارڈ اور تجربہ بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے جس کا ذکر نواز شریف نے بھی اپنے خطاب میں کیا ہے کہ ہمارا بیانیہ جاننا ہو تو موٹر ویز،میٹرو بس، گرین اور اورنج ٹرین، سستے پٹرول اور سستی روٹی،ڈالر کے ریٹ، بجلی کے بل سے پوچھو۔ہر جماعت کی طرح مسلم لیگ نون میں بھی hawks(باز) اور doves ( فاختہ) موجود ہیں ، حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ممولے کو شہباز سے لڑنے کی ترغیب دینے کے بجائے مفاہمت کی سیاست کو ترجیح دی جائے اور شہباز شریف کے "میثاق معیشت” کے فارمولے کو بروئے کار لا کر ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جائے۔ماضی کے برعکس مریم نواز کی گزشتہ چھ ماہ کی تصادم سے گریز کی حکمت عملی اسی جانب پیش رفت کا اشارہ دیتی ہے اور اسی کا عکس نواز شریف کی سوچ میں تبدیلی کی صورت میں بھی نظر آتا ہے جنہوں نے چند ہفتے پہلے جنرل باجوہ ، جنرل فیض اور ثاقب نثار سمیت سابقہ اسٹیبلشمنٹ کو نشانے پر رکھنے کا عندیہ دیا تھا۔اس کا عملی اظہار انہوں نے خطاب کے آغاز سے قبل فاختہ اڑا کر اور یہ اعلان کر کے کیا ہے کہ وہ کسی سے رتی برابر انتقام کی خواہش نہیں رکھتے بلکہ ان کا مشن ملکی ترقی، خوشحالی اور غربت و بیروزگاری کا خاتمہ کر کے عوام کے چہروں پر خوشیاں لانا ہے۔

دیگر حریف جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا بھی نواز لیگ کے لیے ایک اہم چیلنج ہوگا۔اس مقصد کے لیے شہباز شریف کے پی ڈی ایم دور حکومت کے تجربے سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔بالخصوص اس صورت میں کہ سب سے بڑی حلیف جماعت پیپلز پارٹی اب عملی طور پر نواز لیگ کی حریف بن چکی ہے۔ اگر معاملات منصوبہ بندی کے عین مطابق آگے بڑھتے ہیں تو تحریک انصاف کی صورت میں تاریخ کی سخت ترین اپوزیشن آئندہ حکومت کے سامنے موجود ہوگی۔پھر اس سے بھی بڑی اپوزیشن سوشل میڈیا پر متحرک وہ پڑھا لکھا طبقہ ہے جو حالات و واقعات کی بنیاد پر تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ وہ آزاد اور خود مختار سوچ ہے جسے مخصوص اور نوازے گئے صحافیوں اور اینکرز کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور نہ وزارت اطلاعات کے فرسودہ پروپیگنڈے پر مبنی حربے ان پر کارگر ہو سکتے ہیں۔

سو ایوان اقتدار میں واپسی اور درپیش چیلنجوں سے مقابلہ کچھ ایسا آسان نہیں ہوگا۔ گویا

اک اگ کا دریا ہے ، اور ڈوب کے جانا ہے۔