محمد قاسم :
پشاور ہائی کورٹ نے غیرقانونی مقیم افغان مہاجرین کی واپسی درست قرار دیتے ہوئے حکومتی اقدام کیخلاف درخواستیں نمٹا دیں۔ ہزاروں افغان اپنے ملک واپس جا چکے ہیں اور طورخم بارڈر پر واپس جانے والوں کا رش بڑھ گیا ہے۔ جبکہ حکام نے اسکینر کو زیرو پوائنٹ پر لگا دیا ہے اور آنے والوں کو بھی اسکینر سے گزرنا ہو گا۔
واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے قانونی دستاویزات رکھنے والے افغان باشندوں کی دائر درخواستوں کو حکومتی فیصلے کے مطابق نمٹا دیا۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس محمد ابراہیم خان اور جسٹس وقار احمد پر مشتمل ڈویژنل بینچ نے غیر قانونی مقیم افغانوں کی واپسی کو درست قرار دیا اور کہا کہ حکومت نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ جن افغان باشندوں کے پاس قانونی دستاویزات اور پی او آر کارڈز ہوں گے۔ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔
درخواست گزاروں نے عدالت کو بتایا کہ اعلامیہ کے باوجود پولیس قانونی دستاویزات رکھنے والے افغان شہریوں کو تنگ کر رہی ہے۔ جس پر چیف جسٹس محمد ابراہیم خان نے کہا کہ جو غیرقانونی ہیں۔ وہ اپنے ملک جائیں گے۔ قانونی افراد کو تنگ کرنے پر عدالت کارروائی کرے گی۔
دوسری جانب خیبرپختون کے مختلف علاقوں سے غیر قانونی مقیم افغانوں نے طورخم سرحد کا رخ کر لیا ہے۔ منگل کے روز 3 ہزار 129 افراد نے طورخم سرحد عبور کی۔ جبکہ گزشتہ روز (بدھ کو) 4 ہزار سے زائد افغانستان واپسی کیلئے پہنچ گئے ہیں۔ جن کیلئے حکام نے خصوصی رعایت کا اہتمام کیا۔ واپس جانے کیلئے ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ افغانستان سے پاکستان آنے والوں کیلئے بھی حکام نے زیرو پوائنٹ پر اسکینر لگا دیا ہے۔ جن کی دستاویزات چیک کرکے داخلے کی اجازت دی جارہی ہے۔
خیال رہے کہ برطانوی حکومت نے پاکستان سے کہا تھا کہ جن افراد کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان منتقل کیا گیا تھا۔ انہیں برطانیہ منتقلی تک ملک بدر نہ کیا جائے۔ لیکن پاکستان نے کہا ہے کہ یکم نومبر سے قبل برطانیہ مطلوبہ افراد نکال سکتے ہیں۔ کیونکہ انہیں پاکستانی دستاویزات جاری کی گئی تھیں۔ جن کی میعاد ختم ہوگئی ہے۔
ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ امریکہ اور ناٹو ممالک نے تقریباً 7 لاکھ افغان باشندوں کو اپنے ممالک منتقل کرنے کیلئے پاکستان بھیجا اور پھر انہیں بھول گئے۔ برطانیہ میں کئی افراد کی جانب سے قانونی کارروائیوں کی دھمکی کے بعد برطانوی حکام نے اپنے افغان ایجنٹوں کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق تقریباً 13 لاکھ کے قریب غیرقانونی افراد کو نکالا جائے گا۔ اس کے باوجود تقریباً 23 لاکھ مہاجرین کو پاکستان میں رہنے کی اجازت ہو گی۔ ان 13 لاکھ افراد میں 7 لاکھ افغانوں نے 20 سال تک امریکی اور ناٹو افواج، بلیک واٹر اور دیگر پرائیویٹ فوجی اداروں کے ساتھ کام کیا اور ان کے مفادات کیلئے جاسوسی کی۔
ذرائع کے مطابق یہ عام افغان مہاجرین نہیں۔ جو غربت یا دوسری وجہ سے پاکستان آئے۔ بلکہ تربیت یافتہ جاسوس ہیں۔ جو پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ سیکورٹی اداروں کے پاس ان تربیت یافتہ سابق NDS اور دیگر افراد کا مکمل ڈیٹا موجود ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اور سابقہ PDM حکومت کو اس حوالے سے اقدامات اٹھانے کا کہا گیا تھا۔ لیکن دونوں حکومتوں نے اسے نظرانداز کیا۔ جس کے بعد نگراں حکومت نے سیکیورٹی اداروں کے کہنے پر عملی اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا۔
ذرائع کے مطابق اگر امریکہ اور ناٹو ممالک اپنے ایجنٹوں کو اپنے ممالک لے جانا چاہتے ہیں تو یکم نومبر سے قبل اسلام آباد، کراچی اور پشاور ایئرپورٹس سے ایسا کر سکتے ہیں۔ تاہم اس کیلئے انہیں پاکستانی حکومت کے ساتھ تمام تفصیلات شیئرز کرنا پڑیں گی۔ تاکہ حکومت کی ان افراد پر بھی نظر رہے۔ جن کے پاس یہ مقیم رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق صرف برطانوی حکام نے اپنے ایجنٹوں کو نکالنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔