ارشاد کھوکھر :
سندھ کا محکمہ اینٹی کرپشن ملٹی کرپشن کا گڑھ بن گیا۔ گزشتہ تقریباً پونے چھ برس کے دوران ایک بھی ہائی پروفائل انکوائری نہیں کھولی گئی اور نہ ہی کوئی ہائی پروفائل گرفتاری ہوسکی۔
مذکورہ مدت کے دوران 7 ہزار 744 کرپشن کی شکایات میں سے صرف 756 کیس رجسٹر ہوئے اور ان میں سے بھی سزائیں صرف 59 افراد کو ہوسکیں۔ جس کا سبب اینٹی کرپشن کے کام میں سیاسی مداخلت، سفارشی کلچر اور اس سے بھی بڑھ کر رشوت کے عوض کرپٹ افراد سے مک مکا کرنا اور سرعام بھتہ وصول کرنا رہا ہے۔
اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سندھ کے اپنے ریکارڈ کے مطابق یکم جنوری 2018ء سے لے کر 20 اگست 2023ء تک صوبے بھر میں اینٹی کرپشن کی انتظامیہ کے پاس مختلف سرکاری محکموں اور نجی شعبے میں 7 ہزار 744 کرپشن کی شکایات پر انکوائری ہوئی۔ جن میں سے 5 ہزار 257 شکایات کو نمٹایا گیا۔ باقی دو ہزار 487 کرپشن کی شکایات کی انکوائری جاری ہے۔
مذکورہ مدت کے دوران ایک ہزار 640 اوپن انکوائریز کی منظوری دی گئی جن میں سے چیف سیکریٹری سندھ کی سربراہی میں قائم اینٹی کرپشن کمیٹی نمبر ون (اے سی سی ون) نے 42 انکوائریاں اوپن کرنے ، چیئرمین اینٹی کرپشن کی سربراہی میں قائم اے سی سی ٹو نے 984 اور کمشنرز کی سربراہی میں قائم اے سی سی تھری کے اجلاسوں میں 614 انکوائریاں اوپن کرنے کی منظوری دی گئی۔
اس دوران 323 بند شدہ انکوائریوں کی دوبارہ انکوائری کرنے کی منظوری دی گئی۔ لیکن کوئی اور اس مدت کے دوران ایک ہزار 19 انکوائریاں نمٹا کر بند کی گئیں۔ تمام انکوائریوں میں سے 9 اعشاریہ 76 فیصد یعنی 756 کیس رجسٹر ہوئے ان میں سے بھی صرف 7 اعشایہ 8 فیصد یعنی 59 افراد کو سزائیں ہوسکی ہیں۔ لیکن ان میں بھی کوئی ہائی پروفائل شخصیت شامل نہیں۔
جہاں تک اینٹی کرپشن اسٹیبشلمنٹ کی کارکردگی کا سوال ہے تو شروع سے لے کر اینٹی کرپشن نے کرپشن کا بازار گرم رہا ہے۔ جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ آج سے بیس بائیس سال قبل مرزا کریم بیگ بیس بائیس سال قبل جب چیئرمین اینٹی کرپشن کے عہدے پر تعینات تھے تو وہ برملا کہتے تھے کہ یہ ’’اینٹی کرپشن ‘‘ نہیں بلکہ ’’ملٹی کرپشن‘‘ ہے۔ لیکن اس وقت پھر بھی اتنی کرپشن نہیں ہوتی تھیں لیکن اب اینٹی کرپشن خود کرپشن کا بڑا گڑھ بن گیا ہے۔
خصوصاً گزشتہ دس پندرہ برس کے دوران اینٹی کرپشن کی کارکردگی تقریباً پست ہوچکی ہے۔ اس سلسلے میں خود اینٹی کرپشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کا سبب خود صوبائی حکومت رہی ہے۔ جنہوں نے اینٹی کرپشن کی انتظامیہ کے ہاتھ باندھے رکھے اور اس کے لئے یہ جواز پیش کیا جاتا رہا کہ اگر کرپشن کے خلاف موثر کارروائی ہوگی تو اس سے حکومت سندھ کی بدنامی ہوگی۔ اس لیے کرپشن کے خلاف سرگرمیوں کو محدود اور صرف دکھاوے تک رکھا جائے۔ جب خود اعلیٰ صوبائی حکام کا رویہ یہ ہو تو پھر ایسے میں اینٹی کرپشن کی انتظامیہ کے لئے رشوت کے عوض مک مکا کرنے کھل کر موقع مل جاتا ہے۔
مذکورہ ذرائع نے بتایا کہ سرکل آفیسر، زونل ہیڈ سے لے کر اوپر تک تمام اضلاع اور زون کے متعلقہ سرکاری محکموں کے دفاتر سے ماہانہ بھتہ طے ہے۔ جس کا حصہ اوپر تک جاتا ہے۔ یہ بات بھی عام ہے کہ کئی اینٹی کرپشن کے افسران خود ملی بھگت سے مختلف افراد کے خلاف شکایتی درخواستیں کراتے ہیں۔ اور پھر اسی کو دھندہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے میں لین دین کے بعد ابتدائی سطح پر بھی انکوائریز کی فائل بند کئے جاتے ہیں لیکن اینٹی کرپشن میں یہ روایت رہی ہے کہ جھوٹی سچی شکایت پر جو بھی شخص ان کے پاس ایک مرتبہ پھنسا ، پھر طویل عرصے تک انکوائری بند ہونے کے باوجود اس کی جان نہیں چھوٹتی۔
کئی افسران ایسے ہیں جو جب دیکھتے ہیں کہ جیب خالی ہوگئی ہے تو ایسے افراد کو پھر نوٹسز جاری ہوجاتے ہیں۔ اس نوعیت کی شکایات چیئرمین اینٹی کرپشن کے عہدے پر رہنے والے افسران کے پاس بھی آتی رہی ہیں۔ لیکن ان میں سے ماسوائے ایک دو فیصد باقی شکایات کا کوئی تدارک نہیں ہوتا۔ دھندہ جوں کا توں جاری رہتاہے۔
اینٹی کرپشن کے کام میں سیاسی مداخلت اور اثرورسوخ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کئی برسوں سے ڈائریکٹر اینٹی کرپشن کے عہدے پر تعینات گریڈ 19 کے افسر شہزاد فضل عباسی کو عہدے سے ہٹوانے کی کسی کو جرات نہیں ہوسکی۔ بلکہ عملی طور پر دیکھا جائے تو اس کے سامنے چیئرمین اینٹی کرپشن بھی بے بس رہے ہیں۔ اور نگراں حکومت کا قیام وجود میں آنے کے باوجود بھی مذکورہ افسر تاحال اسی آب و تاب سے اسی عہدے پر براجماں ہیں۔ اینٹی کرپشن کا ملازم اور افسر کے علم میں یہ بات ہے کہ شہزاد فضل عباسی کا کوئی بھی بال بیکا اس لئے نہیں کرسکتا کہ وہ اومنی گروپ کے سائے میں ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اینٹی کرپشن کے ریکارڈ کے مطابق یکم جنوری 2018ء سے 20 اگست 2023ء تک صوبے بھر میں اینٹی کرپشن کے متعلقہ افسران نے 327 سرپرائز وزٹ لئے ۔ صرف 156ریڈ ہوئے ۔ کرپشن کیسز کے حوالے سے 722 عدالتوں میں چالان پیش کیے گئے۔ سزا صرف 59 افراد کو ہوئی ہے۔