علی جبران :
جب تحریک انصاف کا دیا (چراغ) نہ جل سکا تب بلے کی کہانی شروع ہوئی تھی۔ یہ انیس سو ستانوے کے عام انتخابات کی بات ہے۔ تحریک انصاف نے یہ الیکشن دیا یا چراغ کے انتخابی نشان پر لڑا تھا۔ لیکن ایک سیٹ بھی نہیں جیت پائی تھی۔ عمران خان بیک وقت اٹھارہ حلقوں سے میدان میں اترے تھے۔ سب میں شکست ہوئی۔ چنانچہ ایسے نئے انتخابی نشان کے لئے سوچ بچار شروع ہوئی جو عوام کے لیے کشش رکھتا ہو۔
اس زمانے میں تحریک انصاف کا مرکزی دفتر اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس فور بازار روڈ کے مکان نمبر 66 میں ہوا کرتا تھا۔ ایک دن اسی آفس میں ہونے والی ایک بیٹھک میں، جس میں عمران خان موجود تھے، اکبر ایس بابر نے تحریک انصاف کا انتخابی نشان کرکٹ بیٹ یعنی بلا رکھنے کی تجویز دی۔ تب اکبر ایس بابر پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات ہوا کرتے تھے۔ تاہم بیٹھک میں موجود چند دیگر رہنماؤں نے یہ کہہ کر اس انتخابی نشان کی مخالفت کی کہ ’’ہم عمران خان کو کرکٹ کی دنیا سے نکال کر پوری طرح سیاست میں لانے کی کوششوں میں ہیں۔
ا نتخابی نشان بلا رکھنے سے چیئرمین پی ٹی آئی کا ذہن پھر کرکٹ کی طرف جائے گا‘‘۔ تاہم عمران خان کی سوئی بلے کے انتخابی نشان پر اٹک چکی تھی۔ چنانچہ انہوں نے نہ صرف دیگر رہنماؤں کے استدلال کو رد کرتے ہوئے اکبر ایس بابر کی تجویز سے اتفاق کیا۔ بلکہ نیا انتخابی نشان الاٹ کرانے کے لیے بطور چیئرمین پارٹی ایک اتھارٹی لیٹر بھی اپنے دستخطوں کے ساتھ اکبر ایس بابر کے حوالے کیا۔ جنہوں نے اگست دو ہزار دو میں الیکشن کمیشن جاکر ’’چراغ‘‘ کی جگہ تحریک انصاف کے لئے انتخابی نشان ’’بلے‘‘ کی درخواست دی۔ اس وقت جسٹس (ر ) ارشاد حسن خان چیف الیکشن کمشنر جبکہ سیکریٹری الیکشن کمیشن حسن محمد تھے۔ چونکہ انتخابی نشان کی الاٹمنٹ کے لئے تین چار سمبل دینے پڑتے ہیں۔ تاکہ اگر ایک نشان مسترد کردیا جائے تو فراہم کردہ فہرست میں سے کوئی دوسرا نشان الاٹ ہوجائے۔
چنانچہ پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع دستاویزات میں بلے (کرکٹ بیٹ) کے ساتھ چیتا (ٹائیگر)، گھوڑا، لالٹین اور بلب کے انتخابی نشان بھی دیئے گئے تھے۔ تاہم فہرست میں پہلے نمبر پر موجود ’’بلے‘‘ کو تحریک انصاف کے الیکشن سمبل کے طور پر منتخب کرلیا گیا تھا۔ دو ہزار دو کے بعد سے تحریک انصاف اپنے سارے الیکشن اسی انتخابی نشان پر لڑتی چلی آرہی ہے۔ لیکن اب تحریک انصاف کا یہ انتخابی نشان خطرے میں ہے۔
پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان ’’بلا‘‘ واپس لئے جانے سے متعلق اس وقت الیکشن کمیشن میں مختلف درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ ان میں سے ایک درخواست استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما عون چوہدری کی ہے۔
دیگر درخواست گزاروں میں محمد اعوان ثقلین اور خالد محمود شامل ہیں۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن نے اپنا فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کی بچی کھچی قیادت کو خوف ہے کہ الیکشن کمیشن ’’کرکٹ بیٹ‘‘ کا انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ سناسکتا ہے۔ اس خدشے کا اظہار منگل کے روز پی ٹی آئی کور کمیٹی نے اپنے ایک بیان میں بھی کیا۔ جس میں کہا گیا کہ ’’تکنیکی موشگافیوں کی آڑ میں بلے کے نشان کو بیلٹ پیپر سے ہٹانے یا تحریک انصاف کو اس سے محروم کرنے کی کوشش جمہوریت کے خلاف ایک سازش ہوگی‘‘۔
کسی بھی سیاسی پارٹی کے لئے اس کا انتخابی نشان بہت اہمیت رکھتا ہے۔ الیکشن کے موقع پر یہ انتخابی نشان ہی ہوتا ہے جس کو پہچان کر ناخواندہ ووٹرز بھی آسانی سے اپنے امیدوار کو ووٹ ڈالتے ہیں۔ پھر یہ کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے انتخابی نشان سے اس کے ووٹرز کی جذباتی وابستگی ہو جاتی ہے۔ بیشتر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف اگلے الیکشن سے باہر ہوگی۔ تاہم اگر ایسا نہیں بھی ہوتا تو کم از کم یہ قوی امکان ہے کہ الیکشن تک عمران خان کی نااہلی برقرار رہے گی اور وہ اپنے انتخابی نشان سے محروم ہو چکی ہوگی۔