نمائندہ امت :
صوبہ خیبرپختون اور بلوچستان میں دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے درمیان گٹھ جوڑ سامنے آیا ہے۔ کیونکہ ذرائع کے مطابق بلوچستان میں سیکورٹی فورسز پر حملے میں بی ایل اے کی جانب سے ناٹو اسلحے کا استعمال کیا گیا۔
اس سے قبل علیحدگی پسند تنظیم کے دہشت گرد صرف روایتی ہتھیار استعمال کرتے تھے۔ جبکہ ٹی ٹی پی ناٹو کا اسلحہ استعمال کرتی رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستانی سیکورٹی فورسز پر دبائو بڑھانے کی بنیادی وجہ سیکورٹی فورسز کو بات چیت پر مجبور کرنا ہے۔ کیونکہ افغانستان میں آہستہ آہستہ وہ بوجھ بن رہی ہے۔ داعش پر طالبان حکومت کا قابو پانا ٹی ٹی پی کی اہمیت کو ختم کر رہا ہے۔
جبکہ افغانستان کے عوام بھی ٹی ٹی پی کے آزادانہ گھومنے کے خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کے امیر نے ٹی ٹی پی کے افغانستان کے اندر اسلحہ لے کر چلنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اور اسلحہ کے بغیر ٹی ٹی پی کمانڈروں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ٹی ٹی پی کی کوشش ہے کہ ماضی کی طرح پاکستانی حکام کو دبائو میں لاکر مذاکرات کیے جائیں اور انہیں کوئی راستہ مل سکے۔
ذرائع کے مطابق حالیہ دہشت گردی کے واقعات کا تعلق اسی منصوبہ بندی سے ہے۔ ماضی میں جب بھی کالعدم ٹی ٹی پی نے دبائو بڑھایا تو حکومت اور سیاسی جماعتوں نے مذاکرات اس سے مذاکرات کیے۔ لیکن اس بار مذاکرات کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سب سے پہلے ٹی ٹی پی کے حامیوں کیخلاف کارروائی ہو گی۔ تاکہ اس کو ملنے والی سہولت ختم ہو اور اس کے بعد ملک گیر آپریشن کا آغاز کیا جائے گا۔ اس حوالے سے تیاری مکمل کرلی گئی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ بلوچستان اور خیبر ایجنسی میں ہونے والے حملوں کے ماسٹر مائنڈ کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے اور سیکورٹی ادارے سہولت کاروں کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان حکومت میں شامل بعض رہنما بھی چاہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے شدت پسند پاکستان چلے جائیں۔ تاکہ مستقبل میں افغانستان میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ جبکہ گزشتہ روز افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے کہا کہ ’ہم نے ابتدا میں ٹی ٹی پی کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن کامیابی نہیں ملی‘۔
ایک ذمے دار ذریعے کے مطابق مذاکرات میں ٹی ٹی پی کو ہتھیار ڈالنے کا کہا گیا تھا۔ جسے نہیں مانا گیا۔ جبکہ عمران خان حکومت میں ٹی ٹی پی کے بعض شدت پسندوں کو واپس بھی لایا گیا تھا۔ جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ الٹا نقصان ہو رہا ہے۔ تاہم موجودہ عسکری قیادت کی جانب سے واضح پیغام دے دیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی ہتھیار ڈال کر پاکستانی آئین کو مان کر ہر قسم کی شدت پسندی چھوڑیں گے تو بات چیت ہو گی۔ ہتھیار ڈالنے کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوگی۔
جبکہ افغان حکام سے کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی دونوں ممالک کے تعلقات کو خراب کرنے کا موجب بن رہی ہے۔ تاہم افغان ذرائع کے مطابق طالبان حکومت اس وقت ٹی ٹی پی پر سختی نہیں کر سکتی کہ اس صورت میں ٹی ٹی پی داعش کے ساتھ مل سکتی ہے۔ ج سے افغان حکومت کیلئے مشکلات مزید بڑھ ھائیں گی۔ دوسری جانب دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کے بعد اس امکان پر بھی غور کیا جارہا ہے کہ غیر قانون مقیم افغان باشندوں کی آڑ میں موجود شدت پسندوں نے ان کارروائیوں میں حصہ لیا ہو۔
ادھر نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں دو ٹوک کہا ہے کہ افغان حکومت کو ٹی ٹی پی یا پاکستان میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ ذرائع کے مطابق کالعدم تحریک طالبان کیخلاف فیصلہ کن کارروائی سے پہلے اسے آخری پیغام سمجھا جارہا ہے۔