محمد علی :
امریکہ نے تیل کے لئے عراق میں جنگ شروع کی تھی، تو اب اس کے پیش رو اسرائیل نے گیس ذخائر کیلیے غزہ کی پٹی کو خون میں نہلا دیا ہے۔غزہ میں قدرتی گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ جس کا تخمینہ 500 ارب ڈالر سے زیادہ لگایا گیا ہے۔
ناجائز صہیونی ریاست فلسطینی مسلمانوں کی زمین اور دیگر قدرتی وسائل کی طرح ’’غزہ گیس میرین فیلڈ ون اور ٹو‘‘ کو ہتھیانے کے لئے سرگرم ہے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل نے واضح طور پر کہا کہ وہ غزہ پر کنٹرول حاصل کرنے جا رہا ہے اور یہاں سے حماس یعنی غزہ کی حکومت کا خاتمہ کر کے علاقے کا انتظام خود سنبھالے گا۔ جبکہ امریکہ نے اس معاملے کی پردہ پوشی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ پر قبضے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے امریکہ کے ساتھ مل کر ’’غزہ گیس میرین فیلڈ ون اور ٹو‘‘ ہتھیانے کی سازش رچائی ہے۔ اقوام متحدہ کی ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ کانفرنس کے مطابق اسرائیل پہلے ہی فلسطینیوں کی ماہی گیری، زرعی زمین پر قبضے اور زیتون سمیت کئی قدرتی وسائل پر قابض ہے۔ عالمی میڈیا میں ’’غزہ وار‘‘ سے متعلق رپورٹس ہیں کہ غزہ کی پٹی پر قبضے کا منصوبہ روس یوکرین جنگ کے تناظر میں بنایا گیا۔
جبکہ 2021 یہی وہ سال تھا، جب پہلی بار غزہ کے ساحل سے 22 میل دور گہرے سمندر میں گیس کے بڑے ذخائر کی بازگشت سنی گئی۔ جون 2022ء میں یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان لیوی ایتھن فیلڈ سے گیس کی سپلائی کے لئے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔
برطانوی خاتون صحافی ریچل ڈونالڈ نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ یوکرین تنازعے کے بعد چونکہ روس نے یورپ کو گیس کی سپلائی بند کر دی تھی۔ اس لئے غزہ کی گیس کو متبادل پلان کے طور پر دیکھا جانے لگا۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق غزہ گیس میرین فیلڈ ون اور ٹو میں ایک کھرب 44 ارب کیوبک فٹ گیس موجود ہے۔ جو دہائیوں تک غزہ کی پٹی اور مقبوضہ مغربی کنارے کی گیس کی ضروریات کو پورا کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ قدرتی گیس کو ایکسپورٹ کرکے بھاری زر مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔
عرب نیوز نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ منصوبے سے محصور فلسطینی خطے کے حالات بدل سکتے تھے۔ ریونیو کا حصہ حماس کو بھی ملتا۔ جس پر اس کا فلسطینی اتھارٹی سے مصر کی ثالثی میں اتفاق ہوگیا تھا۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ بحیرہ روم سے مصر اور اسرائیل برسہا برس سے گیس نکال کر ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔ اسرائیل قبضہ کرکے فلسطینی پانیوں میں موجود لیوی ایتھن اور تمر سمیت 6 فیلڈز سے گیس کی پیداوار کر رہا ہے۔
جبکہ فلسطینیوں کی اپنی سرزمین پر موجود گیس پر خود ان کا حق نہیں ہے۔ ان کے استعمال میں یہ گیس نہیں آ رہی ہے۔ رواں برس امریکہ نے ڈیولپمنٹ کے نام پر معاملے میں ٹانگ اڑاتے ہوئے مصر، فلسطینی اتھارٹی، اسرائیل اور ’’دیگر پارٹنرز‘‘ کو بھی اس میں شامل کرلیا۔ اور سب پارٹنرز کو آمدنی میں سے حصہ دینے کا کہا گیا۔
لندن سے کام کرنے والے ایک عرب جریدے کے مطابق حماس نے اس فارمولے کو فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ میں دریافت ہونے والی گیس فلسطینیوں کی ہے اور صرف فلسطینیوں کو ہی اس سے استفادے کا حق ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ہمارے وسائل پر قبضے اور پابندیوں سے اسرائیل اپنی شرائط نہیں منوا سکتا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اس ضمن میں کئی روز تک قاہرہ میں مذاکرات ہوئے۔ جس میں فلسطینی اتھارٹی کے الفتح گروپ اور حماس نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ جون کے مہینے میں یہ خبر سامنے آئی کہ اسرائیل نے غزہ گیس فیلڈ میں ڈیولپمنٹ ورک کی منظوری دے دی ہے۔
گیس ذخائر کے تخمینے کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں خود اقوام متحدہ بھی ’غزہ گیس فیلڈ‘ پر اسرائیل کا واحد قانونی استحقاق تسلیم نہیں کرتا۔ اس پر اسرائیلی حکومت کے ذرائع نے 20 جون کو دعویٰ کیا کہ اس کا فلسطینی اتھارٹی اور حماس کے ساتھ سیکورٹی معاہدہ طے پا گیا ہے۔
تاہم بعد ازاں فلسطینی اتھارٹی نے ایک بیان جاری کیا کہ حماس کی جانب سے معاہدے کو تسلیم کرنے کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ لہٰذا تمام اسٹیک ہولڈرز کی رضا مندی شامل نہ ہونے کی بنا پر اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ 7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر تاریخ کا سب سے بڑا حملہ کر دیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ حماس کی اس کارروائی کے بعد اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر بمبوں کی بوچھاڑ کر دی اور اس کے ساتھ ہی زمینی حملے کی تیاری بھی شروع کر دی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ جب صہیونی فوج غزہ میں داخل ہوئی تو 30 اکتوبر کو اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے غیر قانونی طور پر غزہ گیس فیلڈ کے سروے کے لئے 6 کمپنیوں کو 12 لائسنس بھی جاری کر دیئے۔ یہ حالیہ دہائیوں کے دوران بحیرہ روم کے ساحل پر دریافت ہونے والے متعدد گیس ذخائر میں سے ایک سے فائدہ اٹھانے کا تازہ ترین منصوبہ تھا۔ جس کا مقصد یورپ کو گیس کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ سمیت تقریباً تمام ہی یورپی ممالک غزہ میں اسرائیلی درندگی پر خاموش ہیں۔
بلکہ اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے نئی دہلی میں بھارتی کونسل برائے عالمی امور (آئی سی ڈبلیو اے) کے ریسرچر ذاکر حسین نے بتایا کہ غزہ کی جنگ اسرائیل کی نسل پرستی اور نفرت انگیزی سے زیادہ یورپ کے مفادات کی جنگ ہے۔ انہوں نے امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں کہا کہ اسرائیل غزہ کے سمندر سے گیس کے بڑے ذخائر کو یورپ تک لے کر جانا چاہتا ہے۔ جس کے لئے اسے امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔