نواز طاہر:
سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے شوکاز نوٹس کا جواب دینے کے بجائے کونسل ہی پر اعتراض اٹھا دیا ہے۔
آئینی و قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے اوپر الزامات رد کرنے سے زیادہ توانائی عدالت آزادی، انصاف اور نظام کے ساتھ ساتھ غیر جانبداری پر سوالات اٹھانے پر صرف کی ہے۔
یاد رہے کہ مسٹر جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پر اثاثوں اور بددیانتی جیسے الزامات کے تحت لاہور کے قانون دان میاں دائود احمد اور وکلا کے منتخب اداروں کی طرف سے ریفرنسز دائر کیے گئے تھے۔ لیکن اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں التو میں رکھا تھا۔ جبکہ مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ موجودہ چیف جسٹس اور مسٹر جسٹس سردار طارق مسعود نے تحریر طور پر عدلیہ کے سربراہ کو ان ریفرنسز پر آئینی و قانونی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے تحریری طور پر باور بھی کروایا تھا۔ مگر اس پر کوئی پیش رفت نہیں کی گئی تھی۔
اب جبکہ سپریم جوڈیشنل کونسل ان ریفرنسز پر ابتدائی کارروائی شروع کر چکی ہے اور اس طرف سے جاری ہونے والے شوکاز نوٹس پر مدعا علیہ جج مسٹر جسٹس مظاہر علی نقوی نے اپنے بیان میں اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کو تحریری شواہد کے ساتھ رد کرنے کے بجائے بعض اعتراضات اٹھائے ہیں جن میں سے سب سے بنیادی اعتراض چیف جسٹس مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور مسٹر جسٹس سردار طارق مسعود پر اٹھایا گیا ہے تاکہ وہ ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کی کونسل کی کارروائی سے خود کو الگ کر لیں۔
اس ضمن میں ان کی طرف سے سابق چیف جسٹس کو لکھے جانے والے مراسلے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے اور اپنے لیے ان دونوں جج صاحبان کے دل میں مخاصمت کا اظہار کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ الزامات کی اب تک تحقیق نہ ہونے پر سوال اٹھایا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے ابھی اپنا جواب داخل کرنا ہے۔ جبکہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کی منظوری بھی درست نہیں۔
مسٹر جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے ان الزامات، خدشات اور اعتراضات کے جواب میں ریفرنسز دائر کرنے والے قانون دان میاں دائود کا کہنا ہے کہ ’’میں نے آمدنی سے زائد اثاثوں، اختیارات کے ناجائز استعمال اور کرپشن پر جو ریفرنس دائر کیا ہے اس پر جسٹس نقوی کے اعتراضات درحقیقت اعتراف جرم ہیں اور انہوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ ان کے پاس ان کی کرپشن، جس کے ثبوت بھی فراہم کیے گئے ہیں، ان کا کوئی جواب نہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں میاں دائود ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’’صاف صاف بتائیں کہ لاہور چھائونی اور گلبرگ کی جائیدادوں کے لیے ناجائز پیسہ کہاں سے آیا۔ اگر جسٹس نقوی نے چوری نہیں کی تو رسیدیں دکھانے میں کیا حرج ہے۔ پراپرٹی ڈیلر نے جسٹس نقوی کی صاحبزادی کے بینک اکائونٹ میں دس ہزار برطانوی پائونڈ کیوں بھجوائے۔
درحقیقت جسٹس نقوی کی ناجائز دولت میں زیادہ اضافہ جنرل پرویز مشرف کی سزائے موت ختم کرنے کے بعد ہوا۔ یہ سزا ختم کرنے کے عوض انہیں اور ان کے خاندان کو نوازا گیا۔ جسٹس نقوی اخلاقی ہمت دکھائیں اور اپنے خلاف عدالتی/سپریم جوڈیشل کونسل) کارروائی کی کھلی عدالت میں سماعت کی استدعا کریں، کھلی عدالت میں کارروائی ہونے سے عوام کو سچ اور جھوٹ کا پتہ چل جائے گا۔ جبکہ وہ ریکارڈ کی عدم فراہمی کے بارے میں درست نہیں کہہ رہے کیونکہ شکایات (ریفرنسز) کے تمام مصدقہ ثبوت منسلک کیے گئے ہیں۔
جسٹس نقوی الزامات کا سامنا کرنے اور جواب دینے کے بجائے جج جیسے اہم ترین منصب کے برعکس ایک پیشہ ور ملزم کے انداز میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں میاں دائود ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’’آئین کا آرٹیکل دو سو نو اور رولز سپریم جوڈیشل کونسل کو شکایات کے ساتھ منسلک ثبوتوں کو کسی بھی ادارے سے تصدیق کروانے کا اختیار دیتا ہے۔ چنانچہ سپریم جوڈیشل کونسل تاخیری حربوں سے اثر لینے کے بجائے متعلقہ ادارے سے ریکارڈ کی تصدیق کروالے۔
ریفرنسز کی سماعت کرنے والے سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان چیف جسٹس مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، مسٹر جسٹس سردار طارق مسعود احمد بلوچستان کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس نعیم اختر افغانی پر اعتراض کے حوالے سے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق جج اور بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین محمد رمضان چودھری نے کہا کہ ’’کسی بھی بینچ میں شامل جج صاحبان پر یا کسی ایک جج پر اعتراض کیا جانا کوئی نئی بات نہیں۔ ایسے اعتراضات ہوتے رہتے ہیں۔
جہاں تک مسٹر جسٹس سید مظاہر علی نقوی کا چیف جسٹس سمیت تین معزز جج صاحبان پر ان کے خلاف ریفرنسز پراعتراض ہے تو اس سے ریفرنسز کے الزامات اور کارروائی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ایسے اعتراض تسلیم کر کے بینچ سے الگ ہو جانا یا پھر اپنے فرائض جاری رکھنے کا فیصلہ کرنا کلی طور پر ان جج صاحبان کی اپنی صوابدید ہے۔ اعتراض کی صورت میں جج کا کارروائی سے الگ کر لینا کوئی قانونی پابندی نہیں ایسے مواقع مسٹر جسٹس مظاہر علی نقوی کی بطور جج فرائض کی انجام دہی کے دوران بھی آتے ہوں گے۔ لہٰذا ریفرنس کی شکایات کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل نے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے فراہم کیے گئے ثبوتوں کی روشنی میں ہی کرنا ہے۔