نواز طاہر:
لاہور میں ایک ہی خاندان کے چھ افراد کی ٹریفک حادثے میں ہلاکت کا مقدمہ دہشت گردی کے مقدمے میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ دوسری جانب چار میں سے ایک زیر حراست مرکزی ملزم بارہویں جماعت کے طالب علم سترہ سالہ افنان شفقت نے کیس کو دہشت گردی کے مقدمہ میں تبدیل کرنے کا اقدام عدالت میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اگرچہ ملزم افنان شفقت کو پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ لیکن اس کے تین ساتھی اور ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے سیکورٹی گارڈ تاحال گرفتار نہیں ہو سکے۔ ادھر سوشل میڈیا صارفین سمیت عوامی حلقوں میں ملزم افنان شفقت کو سخت ترین سزا دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ جبکہ ساتھ ہی ملزم افنان شفقت کو کم عمری کا فائدہ پہنچنے کے امکان پر تحفظات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے۔ لیکن قانونی ماہرین ان تحفظات کو غیر اہم قراردیتے ہیں۔
یاد رہے ایک ہفتہ قبل لاہور کے پوش علاقے ڈیفنس کے فیز سیون میں تیز رفتار کار میں سوار نوجوان نے ایک کار کو پیچھے سے ٹکر ماری دی تھی۔ شاداب کالونی فیروزپور روڈ کے رفاقت علی کے خاندان کے ساتھ یہ سانحہ ڈیفنس میں بیٹی کے سسرال سے گھر واپسی پر پیش آیا۔ جس میں رفاقت کی بیوی پینتالیس سالہ رخسانہ، ستائیس سالہ بیٹا محمد حسنین، بہو تئیس سالہ عائشہ، چار ماہ کا پوتا محمد حذیفہ اور چار سالہ نواسی اتابیہ جاں بحق ہوگئے تھے۔
ان میں سے چار زخمیوں کو طبی امداد دینے کی کوشش بھی کی گئی۔ لیکن وہ قریبی ایوی سینا اسپتال منتقل ہونے سے پہلے ہی دم توڑ گئے۔ جس پر پولیس نے ٹریفک حادثے اور ہلاکتوں کا مقدمہ تو درج کرلیا تھا۔ لیکن اس کی تفتیش میں مبینہ طور پر با اثر پراپرٹی ڈیلر کے بیٹے ملزم افنان کی سپورٹ کی جارہی تھی۔ جبکہ ملزم موقع پر ہی پکڑ لیا گیا تھا اور کار بھی تحویل میں لے لی گئی تھی۔ متاثرہ خاندان کا کہنا ہے کہ یہ حادثہ اتفاقی نہیں تھا، بلکہ جان بوجھ کر ان کی کار کو ہِٹ کیا گیا تھا۔
خاندان کے سربراہ رفاقت کی اس دہائی پر کہ اتفاقی حادثہ نہیں، بلکہ ٹارگٹ کرکے ان کی فیملی کی گاڑی کو ٹکر ماری گئی اور یہ ٹارگٹ کلنگ ہے۔ وزیراعلیٰ نے اس کا نوٹس لیا اور اس مقدمے میں ترمیم کرکے اس میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کی گئیں۔ جبکہ ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ یہ حادثہ ڈرائیور کی تیز رفتاری سے زگ زیگ کرتے ہوئے غفلت کے باعث پیش آیا۔ حالانکہ گاڑی کو ٹکر مارنے سے پہلے ملزم افنان شفقت اور اس کے ساتھیوں سے کار میں سوار لوگوں کی ڈیفنس کے وائی بلاک میں جھڑپ بھی ہوچکی تھی۔ یہ جھڑپ رفاقت کی فیملی کی دونوں گاڑیوں کا پیچھا کرنے، خواتین سے چھیڑ چھاڑ کرنے سے منع کرنے پر ہوئی تھی۔
بعد میں آئی جی کے نوٹس لینے پر یہی بیان مثل میں شامل کرکے انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں۔ مدعی رفاقت کے مطابق ’’میں نے اور میرے بیٹے نے گاڑیاں روک کر ملزم افنان کو منع کیا تھا کہ وہ ہماری گاڑیوں کا پیچھا نہ کرے۔ کیونکہ وہ کافی فاصلہ سے اس گاڑی کا تعاقب کر رہا تھا۔ جس میں خواتین بھی سوار تھیں۔ اس پر ملزم اور اس کے ساتھیوں نے ہمیں دھمکایا اور تعاقب جاری رکھا اور کچھ کلومیٹر آگے آکر تیز رفتاری سے اپنی گاڑی کی ٹکر اس گاڑی کو ماری، جس میں میرا بیٹا اور خاندان کے پانچ دیگر افراد سوار تھے۔ جن میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچ سکا‘‘۔
ادھر ڈی ایچ اے کے مقامی ذرائع کے مطابق ڈی ایچ اے کی سڑکوں پر آوارہ گردی، خواتین سے چھیڑ چھاڑ اور گاڑی سے کرتب دکھانا اور ٹریفک میں خلل ڈالنا ملزم شفقت افنان کا مشغلہ ہے اور کئی بار اس کی مختلف لوگوں سے جھڑپ بھی ہوچکی ہے۔ مگر پولیس مداخلت نہیں کرتی بلکہ با اثر شخصیت کے بیٹے کی مدد کرتی ہے، جس میں ڈی ایچ اے کے سیکورٹی گارڈ بھی معاونت کرتے ہیں۔ اور اُس روز بھی سیکورٹی گارڈز نے ملزم کی مدد کی کوشش کی تھی۔
رفاقت نے اپنے بیان میں خواتین سے چھیڑ چھاڑ جیسے جملے استعمال نہیں کیے، حالانکہ ملزم نے کچھ غلیظ جملے بھی استعمال کیے تھے اور سبق سکھانے کی دھمکی بھی دی تھی۔ اس مرحلے پر کچھ لوگ جمع بھی ہوئی تھے۔ لیکن جیسے ہی دونوں گاڑیاں کچھ فاصلے پر پہنچیں تو ملزم تیز رفتاری سے ان گاڑیوں کے تعاقب میں نکلا اور ڈیڑھ سو کلومیٹر کی رفتار سے زائد اسپیڈ سے گاڑی کو ٹکر ماری اور اسے مسلسل دھکیلتے ہوئے نالے میں گرادیا۔ اسی دوران کچھ افراد موقع پر بھی پہنچے جن میں مبینہ طور پر کچھ گارڈز بھی تھے، لیکن وہاں جمع ہونے والے لوگوں نے ملزم کے فرار کی کوشش ناکام بنا دی اور اسے چھڑانے کیلئے آنے والے بھی وہاں سے کھسک گئے۔
ملزم افنان نے پولیس کے سامنے بیان میں تصدیق کی ہے کہ اس کی کار کی رفتار ایک سو دس کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ لیکن مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ رفتار ایک سو پچاس یا ساٹھ کلومیٹر تھی ۔ آئی جی نے ملزم کی مدد کرنے والے دو تفتیشی افسروں کو پہلے ہی معطل کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اب اس کیس کی تفتیش کرنے والے افسروں کو تفتیش مکمل ہونے تک کسی سے رابطہ نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم کے ساتھی کار سواروں اور سیکورٹی گارڈز کو بھی شاملِ تفتیش کیا جارہا ہے۔ جبکہ جھڑپ سے لے کر حادثے کے مقام تک کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا بھی معائنہ کیا گیا۔ جس میں مدعی رفاقت کے موقف کی تصدیق ہورہی ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ اگلے چار روز میں ملزم کا جسمانی ریمانڈ ختم ہونے تک جامع شواہد کے ساتھ تفتیش کا اہم مرحلہ طے کرلیا جائے گا۔ جبکہ اس وقت مزید گرفتاریاں بھی ممکنہ طور پرعمل میں آچکی ہوںگی۔
قانونی حلقوں کے مطابق یہ معاملہ اب عدالت میں آگیا ہے اور مختلف پہلوئوں پر اس کا فیصلہ ہوگا۔ شہر میں اس کیس یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ اگر ملزم افنان شفقت جیسا کوئی گھمنڈی نابالغ کسی کو قتل کر دے تو کیا اسے اس کی معافی یا رعایت دینا قرینِ انصاف ہوگا؟
اس ضمن میں سینئر قانون دان سہیل ڈار کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ، یہ سوال سے زیادہ سماجی تشویش ہے جو اس اندوہناک واقعے پر عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔ جہاں تک قانون کی بات ہے تو ہر جرم کی سزا قانون میں متعین ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جوینائل کورٹ میں میں کیس کی سماعت یا سزا سے کوئی فرق پڑ سکتا ہے، یہ درست نہیں۔ جوینائل ملزم یا قیدی کو قانون نے جو سہولت دی ہے، وہ عادی اخلاقی مجرموں سے الگ رکھ کر ایسے افراد کی صحبت سے جسمانی اور ذہنی طور پر محفوظ رکھنا ہے۔
جوینائل طرز ٹرائل میں بحیثیت ملزم قتل کے جرم میں قتل جیسا اور دہشت گردی کے جرم میں دہشت گردی جیسا ہی ٹرائل ہوگا۔ اور جرم ثابت ہونے پر عدالت نے فیصلہ بھی اسی جرم پر قانون میں مقرر کی گئی سزا کے مطابق ہی کرنا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ کم عمر ملزم کے بارے میں قانون بڑا واضح ہے۔
یہاں اس کیس میں ملزم کی عمر سترہ سال بتائی جاتی ہے اور جوینائل کے میں عدالت نے قانون کی منشا کے مطابق ملزم کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو پرکھنا ہوتا ہے۔ اگر دنیا میں اٹھارہ سال سے کم عمر میں کسی کو نوبیل انعام دیا جاتا ہے تو کیا وہ سبھی ناسمجھ تھے؟ قانونی معاملات میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ملزم کی عمر سترہ برس ہونے اور چھ افراد کی ہلاکت کے معاملے میں قانون نے شواہد اور کیس کو دیکھنا ہے، عمر کو سامنے رکھ کر فیصلہ نہیں کرنا۔