سجاد عباسی
مسلم لیگ نون کے دو ناراض ہیوی ویٹ سیاست دانوں شاہد خاقان عباسی اور سردار مہتاب عباسی کے حلقے پارٹی قیادت کیلئے خصوصی چیلنج بن گئے ہیں اور اتفاق سے یہ دونوں حلقے بالترتیب پنجاب اور کے پی کی سرحد پر باہم ملحق ہیں۔اول الذکر حلقہ این اے 57 راولپنڈی کا ہے جو مری کہوٹہ سمیت راولپنڈی کے بعض علاقوں پر مشتمل ہے جبکہ پنجاب سے ملحقہ کے پی کا پہلا حلقہ این اے 16 ایبٹ آباد کا ہے جہاں سے ماضی میں کئی بار سردار مہتاب عباسی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں.
حلقہ بندیوں میں تبدیلی کے باعث2018 کے الیکشن میں اس حلقے سے مرتضی جاوید عباسی منتخب ہوئے تھے جبکہ اس سے قبل 2013 کے الیکشن میں یہاں سے پاکستان تحریک انصاف کے علی جدون رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں،تاہم روایتی طور پر یہ حلقہ سردار مہتاب عباسی کا رہا ہے جو 1985 سے مسلسل کئی مرتبہ یہاں سے ایم این اے منتخب ہوتے رہے ہیں ،جبکہ گورنر اور وزیراعلی کے علاوہ تین بار وفاقی وزیر اور مشیر کے عہدے پر متمکن رہے۔اس کے علاوہ ایک موقع پر انہیں صدر مملکت کے لیے بھی زیر غور لایا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون کے لیے گزشتہ کئی دہائیوں سے شاہد خاقان عباسی اور سردار مہتاب عباسی یکساں طور پر اہمیت کے حامل رہے ہیں جنہیں پارٹی سے غیر متزلزل رفاقت اور سیاسی تجربے کے باعث قیادت کا بھرپور اعتماد بھی حاصل رہا ہے کیونکہ ان دونوں رہنماؤں نے مشکل ترین وقت میں پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔مہتاب عباسی مشرف کے فوجی انقلاب کے بعد اٹک قلعے میں تین برس سے زائد عرصے تک قید رہے جبکہ شاہد خاقان عباسی نام نہاد طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں نواز شریف کے شریک ملزم کے طور پرکراچی جیل میں قید رہنے کے علاوہ حالیہ برسوں میں بھی نیب کی جیل بھگتتے رہے ہیں۔یہ دونوں ہیوی ویٹ سیاستدان اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر اس وقت پارٹی قیادت سے ناراض ہیں اور دھیرے دھیرے قیادت کا اعتماد کھوتے جا رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک طرف سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان کر دیا ہے اور وہ وقتا” فوقتا” اپنی جماعت پر تنقید کرتے ہوئے اسے ملک کی بدحالی کا ذمہ دار بھی قرار دینے لگے ہیں۔بظاہر ان کا اختلاف مریم نواز کو چیف آرگنائزر بنانے پر شدت اختیار کر گیا تھا تاہم کئی دیگر معاملات پر بھی انہیں پارٹی قیادت سے شکایات ہیں اور بعض ذرائع کے مطابق وہ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد عبوری دور کیلئے 2017 کی طرح ایک بار پھر وزیراعظم بننے کے خواہشمند تھے تاہم قیادت کی خواہش پر شہباز شریف وزارت عظمی کے منصب پر متمکن ہوئے۔مریم نواز کے چیف آرگنائزر بننے کے بعد شاہد خاقان عباسی نے نواز لیگ سے دوری اختیار کر لی تھی اور دوسری طرف سے بھی اہم اجلاسوں میں انہیں شریک نہیں کیا جاتا تھا۔یہ صورت حال اب بھی برقرار ہے بلکہ دوری عملی طور پر علیحدگی کی شکل اختیار کر چکی ہے تاہم اس دوران چند ماہ پہلے ان کی لندن میں میاں نواز شریف سے ملاقات ہوئی تھی جس میں ذرائع کا دعوی ہے کہ انہوں نے اپنی جگہ بیٹے کے لیے آبائی حلقے سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ مانگا تھا تاہم اس فرمائش کو پذیرائی نہیں مل سکی جس کے بعد وہ نہ صرف خود الیکشن نہ لڑنے کا واضح اعلان کر چکے ہیں بلکہ انتخابات کو ایک فضول مشق قرار دیتے ہیں۔
لیگی ذرائع کے مطابق مری کی یہ نشست مسلم لیگ نون کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ ایک تو نواز شریف مری کو اپنا دوسرا گھر قرار دیتے ہیں اور دوسرے گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ حلقہ روایتی طور پر مسلم لیگ نون کا رہا ہے تاہم گزشتہ الیکشن میں شاہد خاقان عباسی طویل کامیاب پس منظر کے باوجود تحریک انصاف کے صداقت علی عباسی کے ہاتھوں شکست کھا گئے تھے جس کے بعد انہیں نواز شریف نے لاہور کی نشست سے ضمنی الیکشن میں جتوایا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اب کی بار مسلم لیگ نون کے لیے شاہد خاقان عباسی کا حلقہ مزید اہمیت اختیار کر گیا ہے اور عین ممکن ہے کہ خود میاں نواز شریف یا مریم نواز اس حلقے سے میدان میں اتریں۔اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ شاہد خاقان عباسی کے علیحدہ ہونے کی صورت میں اس حلقے کا لیگی ووٹ مزید تقسیم ہو کر تتر بتر ہو سکتا ہے تاہم اگر نواز لیگ کی قیادت میں سے کوئی بڑی شخصیت اسے اپنا حلقہ انتخاب بناتی ہے تو کارکنوں کو جوڑ کر رکھنا ممکن ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف مری کے مذکورہ حلقے سے ملحقہ کے پی کے میں ایبٹ اباد کا حلقہ این اے 16 بھی مسلم لیگ نون کے لیے اسی طرح اہمیت کا حامل ہو گیا ہے جہاں سے گزشتہ الیکشن میں اسپیکر قومی اسمبلی مرتضی جاوید عباسی جیتے تھے تاہم بنیادی طور پر یہ حلقہ سابق گورنر اور وزیر اعلی کے پی کے سردار مہتاب عباسی کا ہے جہاں گزشتہ تین الیکشن میں وہ ناکامی سے دوچار ہوتے رہے ہیں اور اب کی بار وہ بھی قدرے مختلف وجوہات کی بنا پر پارٹی قیادت سے ناراض ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق نواز شریف کی ہدایت کے باوجود انہیں منایا نہیں جا سکا اور وہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر چکے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے قریبی رفقاء کے سامنے واضح کر دیا ہے کہ انہیں نوازلیگ کا ٹکٹ ملا بھی تو وہ قبول نہیں کریں گے تاہم دوسری طرف ذرائع کا کہنا ہے کہ خود نواز لیگ نے انہیں ٹکٹ دینے سے غیر اعلانیہ معذرت کر لی ہے۔لیگی قیادت کا کہنا ہے کہ مہتاب عباسی نے ماضی میں گورنر اور وزیراعلی سمیت تین بار وفاقی وزارت حاصل کرنے کے باوجود مشکل وقت میں معمولی باتوں پر ناراض ہو کر بیٹھنے اور پارٹی میں گروپ بندی کو ترجیح دی حالانکہ ان کے بیٹے کو حال ہی میں ہونے والے میئر ایبٹ آباد کے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ دیا گیا تھا جو تحریک انصاف کے ایک نوآموز سیاسی کارکن کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو گئے۔
دوسری طرف مہتاب عباسی کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ انہیں ان کے سیاسی قد اور حیثیت کے مطابق پارٹی نے اہمیت نہیں دی اور امیر مقام کی سربراہی میں بننے والے گروپ کے ذریعے انہیں سیاسی طور پر رسوا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ذرائع کےمطابق مہتاب عباسی کو سب سے زیادہ پریشانی مرتضی جاوید عباسی سے ہے جو ان کے سابق سیاسی رفیق حاجی جاوید اقبال عباسی کے فرزند ہیں تاہم غیر معمولی سیاسی تحرک کی وجہ سے انہوں نے تیزی سے اپنی جگہ بنا کر قیادت کا اعتماد حاصل کر لیا ہے۔ذرائع کادعوی ہے کہ سرکل بکوٹ اور لورہ سمیت مختلف ملحقہ علاقوں پر مشتمل اس حلقے سے ایک بار پھر مرتضی جاوید عباسی ایم این اے کا الیکشن لڑنے کے لیے میدان میں اترنے والے ہیں اور مفاہمت نہ ہونے کی صورت میں ان کا مقابلہ سردار مہتاب عباسی کے ساتھ دو بدو ہوگا۔
نتیجتا” مسلم لیگ نون کا ووٹ بینک تقسیم ہوگا جس کا فائدہ لازمی طور پر مخالف فریق یعنی تحریک انصاف کو پہنچے گا۔ذرائع کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اس حلقے کو بھی پارٹی قیادت خصوصی اہمیت دے رہی ہے اور عین ممکن ہے کہ یہاں مرتضی جاوید عباسی کی انتخابی مہم چلانے کے لیے خود میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف میدان میں اتریں اور اس طرح عملا” ان دو ملحقہ حلقوں میں لیگی قیادت براہ راست یا بالواسطہ طور پر الیکشن میں حصہ لے رہی ہوگی۔واضح رہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی مقبولیت سمیت حالیہ برسوں میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے باعث اب سب سے بڑے صوبے میں بھی نواز لیگ کے لیے ووٹ بینک کو قابو رکھنا خاصا مشکل ہوگا۔
ایسے میں پنجاب کے مرکز لاہور سے روایتی طور پر شریف خاندان کا خود الیکشن میں حصہ لینا یقینی ہے جبکہ دوسری طرف سندھ اور بالخصوص کراچی میں پارٹی کو ایک بار پھر متحرک کرنے کی خاطر اور پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینے کے لیے مسلم لیگ نون نے کراچی کے کم از کم دو حلقوں سے بھی مریم نواز اور شہباز شریف کو الیکشن لڑانے کی حکمت عملی تیار کی ہے۔تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ انتخابی میلہ سجنے سے مشروط ہے، قومی انتخابات کے لیے مقرر کردہ 8 فروری کی تاریخ محض دو ماہ کی دوری پر ہے مگر لیول پلیئنگ فیلڈ پر سرپٹ بھاگنے والا مسلم لیگ نون کا گھوڑا بھی فی الوقت ریس کے یقینی انعقاد کے حوالے سے گو مگو کی کیفیت میں ہے اور لیگی قیادت کو میلے سے پہلے ہی کمبل چوری ہونے کا خدشہ لاحق ہو گیا ہے ۔