پارٹی الیکشن کالعدم قرار دے کر رجسٹریشن منسوخ کی جاسکتی ہے، فائل فوٹو
 پارٹی الیکشن کالعدم قرار دے کر رجسٹریشن منسوخ کی جاسکتی ہے، فائل فوٹو

’’تحریک انصاف میں عمران نے شخصی آمریت قائم رکھی‘‘

علی جبران:

تحریک انصاف کے بانی رہنما اکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف وہ الگ سے کوئی پٹیشن دائر نہیں کریں گے۔ البتہ وہ تمام حقائق اور شواہد الیکشن کمیشن پاکستان کے سامنے رکھیں گے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پارٹی انتخابات محض فراڈ تھے۔ شواہد اتنے ٹھوس ہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن کا کالعدم ہونا یقینی دکھائی دے رہا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تحریک انصاف کا پہلا آئین پارٹی کو ایک جمہوری ادارہ بنانے کی عکاسی کرتا تھا، جس کی رو سے چیئرمین کی مدت صرف چھ برس مقرر کی گئی تھی۔ یعنی وہ تین، تین برس کے لئے اس عہدے پر صرف دو مرتبہ منتخب ہوسکتا تھا۔ اس کے بعد وہ اس عہدے کے لئے الیکشن نہیں لڑسکتا تھا۔ لیکن اس کے برعکس عمران خان مسلسل اس سیٹ پر بیٹھے رہے۔ پی ٹی آئی میں شخصی آمریت قائم کرنے کے لئے پارٹی آئین میں تقریباً نصف درجن بار ترمیم کی گئی۔ اکبر ایس بابر سے کی گئی گفتگو سوال و جواب کی شکل میں نذر قارئین ہے۔

س : کہا جارہا ہے کہ آپ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف پٹیشن دائر کرنے جارہے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ بتائیں گے؟

ج : میں الگ سے پٹیشن نہیں کروں گا۔ چونکہ پی ٹی آئی کے خلاف انٹرا پارٹی الیکشن کا کیس پچھلے ڈیڑھ دو برس الیکشن کمیشن پاکستان میں چل رہا ہے۔ ابھی یہ نمٹایا نہیں گیا ہے اور بیس دن الیکشن کرانے کے لئے دیئے گئے تھے۔ اس کے بعد پی ٹی آئی نے سات روز میں رپورٹ جمع کرانی ہے۔ ہم اسی کیس کے ریفرنس سے اصل حقائق الیکشن کمیشن میں جمع کرائیں گے، تاکہ الیکشن کمیشن پاکستان کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔ پی ٹی آئی والے اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔ ہم حقائق پر مبنی اپنی رپورٹ جمع کرائیں گے کہ کس طرح انٹرا پارٹی الیکشن میں قانونی و آئینی خلاف ورزیاں کی گئیں۔ ہم نیا کیس نہیں کریں گے۔ کیس تو پہلے سے چل رہا ہے۔ کہنے کا مقصد ہے کہ ہم الیکشن کمیشن پاکستان کے سامنے دستاویزی اور واقعاتی شواہد پیش کردیں گے۔ اگرالیکشن کمیشن ہمیں بلانا اور سننا چاہے تو ہم پیش ہو جائیں گے۔

س : شواہد میں کیا دیں گے؟
ج: یہ جو میں پی ٹی آئی اسلام آباد کے مرکزی دفتر گیا تھا ، جس کی ویڈیو موجود ہے۔ میں نے وہاں جا کر کاغذات نامزدگی کے فارم مانگے تھے تاکہ بطور بانی ممبر پی ٹی آئی، میں بھی انٹرا پارٹی الیکشن میں حصہ لے سکوں۔ لیکن مرکزی دفتر میں ووٹر لسٹ تھی اور نہ ہی کاغذات نامزدگی کے فارم تھے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس فراڈ پارٹی الیکشن میں جتنے عہدیداران بھی سلیکٹ ہوئے ہیں، چاہے وہ جیل میں ہیں اور چاہے وہ روپوش ہیں۔ یہ کیسی انہونی ہے کہ انہوں نے تو اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرادیے ۔ کب کرائے ؟ کہاں کرائے ؟ کسی کو نہیں معلوم۔

ان کے علاوہ پی ٹی آئی کے کسی ایک ورکر نے بھی کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے۔ کیونکہ انہیں کاغذات نامزدگی دستیاب ہی نہیں تھے۔ پارٹی کے مرکزی آفس جانے پر مجھے خود وہاں موجود ان کے لوگوں نے بتایا کہ ساری ایک کاغذی کارروائی ہے۔ مقصد صرف الیکشن کمیشن پاکستان کو مطمئن کرنا ہے۔ یہ ساری باتیں ویڈیو کی شکل میں ریکارڈ پر ہیں۔ میرا چیلنج ہے کہ پی ٹی آئی اپنی کسی ویب سائٹ پر بھی یہ تین چیزیں کاغذات نامزدگی، ووٹر لسٹ اور الیکشن کے قواعد و ضوابط دکھا دے۔ الیکشن تو یہ ہوتا ہے کہ آپ کاغذات نامزدگی داخل کراتے ہیں۔ پھر ان کاغذات کی جانچ پڑتال ہوتی ہے اور حتمی امیدوار کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ کسی امیدوار کے خلاف فیصلہ آئے تو اسے اپیل کا حق دیا جاتا ہے۔ کلیئر ہونے کے بعد امیدواروں کے نام بیلٹ پیپرز پر آتے ہیں۔ پھر ووٹنگ ہوتی ہے۔

پی ٹی آئی اس میں سے کوئی ایک مرحلہ بتادے جو اس نے طے کیا ہو۔ پولنگ والے روز صرف ’’قبول ہے ، قبول ہے‘‘ کے نعرے لگے اور عہدیداروں کی سلیکشن ہوگئی۔ اسی لئے میرا کہنا ہے کہ یہ ایک فراڈ الیکشن تھا۔ جس میں الیکشن کمیشن پاکستان اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی۔ کم از کم ان وکلا کو سوچنا چاہئیے جو آئین وقانون کے علمبردار بنتے ہیں اور وہ اس فراڈ کا حصہ بنے۔ ہمیشہ کے لئے ان پر یہ دھبہ لگا رہے گا۔

س: دھاندلی کے یہ حقائق اور شواہد آپ کب تک الیکشن میں جمع کرادیں گے؟
ج: میں اپنے وکلا سے مشاورت کر رہا ہوں۔ پوری تیاری کے ساتھ تمام حقائق اور شواہد اکٹھے کرکے جمع کرائیں گے۔ لہٰذا اس میں چندروز لگیں گے۔

س : جن حقائق اور شواہد کا ذکر آپ نے کیا ہے۔ اس کی روشنی میں آپ کے خیال میں الیکشن کمیشن ان پا رٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیدے گا؟
ج : بالکل ، اس کے امکانات یقینی دکھائی دے رہے ہیں۔ کیونکہ اس حوالے سے ناقابل تردید حقائق وشواہد موجود ہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن کے نام پر مذاق کرتے ہوئے کس طرح آئین و قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ ا لیکشن کالعدم ہوجانے کی صورت میں ’’بلے‘‘ کا انتخابی نشان پی ٹی آئی سے واپس لے لیا جائے گا اور ان کے ارکان کو اگلے عام انتخابات آزاد امیدوار کے طور پر لڑنے پڑیں گے۔ یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ پارٹی کی رجسٹریشن ہی منسوخ کردی جائے۔ اور کہا جائے کہ رجسڑیشن کے لئے دوبارہ اپلائی کریں۔

س : ان تمام اقد امات سے پہلے کیا الیکشن کمیشن پاکستان ایک اور موقع دیتے ہوئے پی ٹی آئی کو دوبارہ پارٹی الیکشن کا حکم نہیں دے سکتا ؟
ج : یہ حکم بھی دے سکتا ہے۔ لیکن اس کے امکانات کم ہیں۔ کیونکہ الیکشن کمیشن پاکستان اپنے فیصلے میں پہلے ہی لکھ چکا ہے کہ الیکشن نہ کرانے پر ’’بلے‘‘ کا نشان واپس لے لیا جائے گا۔ یہ نہیں کہا کہ جعلی الیکشن کرائے تو دوبارہ کرانے ہوں گے۔ لہذا میرے نزدیک مزید ایک موقع اور دینے کے بجائے انتخابی نشان واپس لئے جانے کا امکان زیادہ ہے۔ کیونکہ پہلے ہی پچھلے ڈیڑھ دو برس سے الیکشن کمیشن پاکستان پی ٹی آئی کو مواقع دیتا چلا آرہا ہے۔ اب اس کی گنجائش بنتی نہیں۔

س : اگر انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دے کر پی ٹی آئی کی رجسٹریشن بھی منسوخ کردی جاتی ہے تو آپ کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ کیا آپ اپنے نظریاتی گروپ کے لئے اسی نام سے نئی رجسٹریشن کرانے اور ’’بلے‘‘ کے انتخابی نشان کے لئے اپلائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
ج : ہم نے اس بارے میں ڈسکس کیا تھا کہ ہمارے پاس ’’بلے‘‘ کا نشان لینے کا کیا قانونی آپشن موجود ہے۔ ہمارا خیال تھاکہ الیکشن کمیشن پاکستان کوئی ایڈمنسٹریٹر مقرر کرے جو اپنی نگرانی میں شفاف انٹرا پارٹی الیکشن کو یقینی بنائے۔ لیکن بدقسمتی ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کا کوئی قانون موجود نہیں۔ چنانچہ یہ آپشن ترک کردیا گیا۔ جہاں تک آپ کے سوال کے اس حصے کا تعلق ہے کہ اگر انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دے کر پی ٹی آئی کی رجسٹریشن منسوخ اور انتخابی نشان واپس لے لیا جاتا تو ہمارا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ تاہم ایسے میں ہم نئی رجسٹریشن کے لئے اپلائی کرسکتے ہیں۔ یہ آپشن اپنی جگہ موجود ہے۔

س: پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے نظریاتی کارکنوں کے کیا جذبات ہیں ؟
ج : ملک بھر کے نظریاتی کارکنوں میں بے چینی اور غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ مجھے بے شمار پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔ جب ہم پی ٹی آئی کے مرکزی دفتر گئے تو وہاں بلوچستان سے آیا ہوا ایک پارٹی وفد بیٹھا تھا۔ اس وفد نے جس گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا۔ اس سے اندازہ ہوجانا چاہیے کہ ورکرز میں اس وقت کیا سوچ پائی جارہی ہے۔ نظریاتی کارکنوں کا کہنا ہے کہ آپ ورکرز کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ہم اسے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مجھے بیرون ملک سے اوور سیز کارکنوں کی بھی کالیں آرہی ہیں۔

س : تحریک انصاف کے ترجمان کا بیان آیا ہے کہ تیرہ برس قبل پارٹی سے اکبر ایس بابر کی رکنیت ختم کردی گئی تھی۔ اس پر کیا کہیں گے؟
ج : یہ لوگ بوکھلا گئے ہیں۔ اس بوکھلاہٹ میں پی ٹی آئی کے مختلف ترجمان مختلف باتیں کررہے ہیں۔ کچھ کا دعویٰ ہے کہ میں تحریک انصاف کا رکن ہی نہیں ہوں، مجھے نکال دیا گیا تھا۔ حالانکہ میں ناصرف پی ٹی آئی کا بانی رکن ہوں۔ بلکہ واحد ممبر ہوں جس کی ممبر شپ کی تین آئینی اداروں الیکشن کمیشن آف پاکستان، سنگل بنچ ہائی کورٹ اور پھر ڈبل بنچ ہائیکورٹ نے توثیق کی۔ اس حوالے سے ان کے تحریری فیصلے موجود ہیں۔ لہٰذا پی ٹی آئی کے ترجمان اس طرح کی باتیں کرکے توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

س: پی ٹی آئی کا پہلا آئین کب بنا تھا؟
ج: پارٹی کا پہلا آئین انیس سو ستانوے میں بنا تھا۔ اس میں طے کیا گیا تھا کہ پارٹی چیئرمین کی مدت تین ، تین برس کے لئے مجموعی طور پر چھ برس ہوگی۔ اس کے بعد وہ اس عہدے کے لئے دوبارہ پارٹی الیکشن نہیں لڑسکے گا۔ تاہم اس پارٹی آئین کو اب تک تقریباً نصف درجن سے زائد ترامیم کرکے مسخ کیا جاچکا ہے۔ تاکہ عمران خان خود کو مسلسل چیئرمین کے طور پر برقرار رکھ سکیں۔ پہلے آئین میں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ اگر کسی پارٹی رہنما یا ممبر پر کرپشن کا محض الزام بھی ہوگا تو پارٹی الیکشن نہیں لڑسکے گا۔

دوہزار تیرہ میں پارٹی آئین میں کی جانے والی ترمیم کے ذریعے کہا گیا کہ اگر الزام ثابت ہوجائے تو تب ہی مذکورہ شخص پارٹی الیکشن نہیں لڑسکے گا۔ اس کے بعد پارٹی آئین میں مزید ترمیم کرکے چیئرمین کی مدت پانچ برس کردی گئی۔ پھر پارٹی آئین میں ہونے والی ترمیم سے خفیہ رائے شماری کی جگہ شوآف ہینڈکا طریقہ متعارف کرادیا گیا۔ ایک ترمیم یہ بھی کی گئی کہ انفرادی طور پر کوئی ممبر پارٹی الیکشن لڑنے کے بجائے پینل کے تحت الیکشن لڑے گا۔ پارٹی آئین میں بار بار ترمیم کرکے اس کی شکل بگاڑنے کا واحد مقصد یہ تھا کہ پارٹی پر ایک شخص (عمران خان) کی آمریت قائم رہے۔ پارٹی الیکشن کو ہمیشہ متنازعہ بناکر لوگوں کو تقسیم رکھا جائے اور چیئرمین کی سربراہی پر سوال نہ اٹھائے جاسکیں۔