علی جبران :
ڈاکٹر عافیہ کے درد بھرے خطوط بھی حکمرانوں کو نہ جگا سکے۔ قوم کی بیٹی نے دو ہزار بارہ میں اس وقت کے وزیر اعظم پرویز اشرف اور صدر آصف زرداری، دو ہزار تیرہ میں وزیر اعظم نواز شریف، دو ہزار اٹھارہ میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور پھر اسی برس عمران خان کو اپنے ہاتھ سے خط لکھے تھے۔ لیکن ان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ ان خطوط کی کاپی ’’امت‘‘ کے پاس محفوظ ہے۔ جن کے ذریعے ڈاکٹر عافیہ امریکی جیل میں خود کو درپیش خطرات سے حکمرانوں کو آگاہ کرتی رہیں اور بتایا کہ وہ کس قدر عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو اسٹیفورڈ نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ عافیہ صدیقی سے کم از کم دو بار ان کے گارڈز نے جنسی زیادتی کی۔ جبکہ جیل کے قیدیوں نے انہیں ان گنت بار جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا۔ کلائیو اسٹیفورڈ کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت پاکستان ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ ہونے والے ان المناک واقعات سے آگاہ ہے۔ یاد رہے کہ قوم کی بیٹی کو مشرف دور میں امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا۔
دسمبر دو ہزار بارہ میں اس وقت کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف، صدر آصف علی زرداری، وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک اور وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کو لکھے ایک مختصر خط میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے کہا تھا ’’آپ لوگ میری پاکستان منتقلی کے حوالے سے کوئی قدم اٹھانے سے کیوں گریزاں ہیں۔ اس سلسلے میں میری وکیل ٹینا فوسٹر بھی آپ کو بے شمار خطوط لکھ چکی ہے۔ لیکن آپ لوگوں نے کبھی جواب دینے کی زحمت نہیں کی۔
اگر آپ میری رہائی کے لئے امریکی حکام سے بات چیت کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں مجھے پاکستان میں اپنی باقی قید کاٹنے کی اجازت مل سکتی ہے۔ یوں میں اپنی فیملی اور بچوں کو دیکھ سکوں گی‘‘۔ خط کے آخر میں ڈاکٹر عافیہ نے جو جملے لکھے تھے۔ ان سے ان کے درد کی عکاسی ہوتی ہے۔ انہوں نے پوچھا تھا ’’آپ میری مدد کیوں نہیں کر رہے؟ آپ خاموش کیوں ہیں؟ میں اب تک امریکی جیل میں کیوں ہوں؟‘‘۔ پیپلز پارٹی کا پورا پانچ سالہ دور گزر گیا۔ لیکن ڈاکٹر عافیہ کو اپنے سوالات ک جواب نہ مل سکے۔
پی پی پی کا اقتدار اختتام پذیر ہوا تو نون لیگ کی حکومت آگئی۔ نواز شریف تیسری بار وزارت عظمیٰ کے سنگھاسن پر بیٹھے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے نواز شریف کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات کے موقع پر نواز شریف نے کہا تھا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کو اپنی بیٹی مریم کی طرح سمجھتے ہیں۔ اقتدار میں آگئے تو ہر صورت ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان لائیں گے۔ انہوں نے عصمت صدیقی کو کہا کہ وہ ان کے لئے دعا کریں۔ یہ امید کی ایک کرن تھی۔ سو نہ صرف عصمت صدیقی بلکہ امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ نے بھی نواز شریف کے اقتدار کے لیے بہت دعائیں کی تھیں اور یہ بات خود مرحومہ عصمت صدیقی نے بتائی تھی۔
نواز شریف کو اقتدار مل گیا اور وہ تیسری بار وزیر اعظم بن گئے۔ ڈاکٹر عافیہ اور ان کی فیملی کی امیدوں کے چراغ بھی روشن ہونے لگے۔ اس دوران امریکی جیل سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے نواز شریف کو انگریزی میں ایک قدرے تفصیلی خط لکھا۔ جس میں اس امید کا واضح اظہار کیا گیا۔ اکتیس مئی دو ہزار تیرہ کو لکھے گئے خط میں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ نے کہا ’’آپ کی پارٹی کو عام انتخابات جیتنے اور آپ کو ایک بار پھر وزیر اعظم بننے پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ میں آپ کو یہ خط ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے لکھ رہی ہوں اور درخواست کرتی ہوں کہ مجھے فوری پاکستان لانے کا انتظام کیا جائے۔
سترہ دسمبر دو ہزار بارہ کو میں نے اس وقت کے وزیر اعظم پرویز اشرف اور ان کے وزیر داخلہ سمیت پاکستان کے متعدد رہنماؤں کو بھی اس سلسلے میں خطوط لکھے، اور کہا کہ میری باقی سزا پاکستانی جیل میں کاٹنے کا بندوبست کیا جائے۔ تاکہ میں اپنی فیملی سے قریب ہو سکوں۔ لیکن چھ ماہ گزرنے کے باوجود کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ مجھے امید ہے کہ مدد کی اس پکار کو آپ کی حکومت نظر اندر نہیں کرے گی۔ کم از کم جب تک میں امریکی جیل میں ہوں حکومت پاکستان میرے تحفظ کے حوالے سے بہت کچھ کرسکتی ہے۔
پچھلے ہفتے جیل عملے کے ایک مرد اہلکار کی طرف سے مجھ پر حملہ کیا گیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں محفوظ رہی۔ تاہم یہاں میری زندگی مسلسل خطرے میں ہے۔ یہ حالات میرے لئے کسی بھی طرح ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ سندھ ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں حکومت کو ہدایت کی ہے کہ میری پاکستان واپسی کے لئے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو بروئے کار لایا جائے۔
مجھے امید ہے کہ آپ اس معاہدے پر عملدرآمد سے متعلق اقدامات کو یقینی بنائیں گے۔ تاکہ میری وطن واپس ممکن ہو سکے۔ اس حوالے سے میں درخواست فارم پر دستخط کر چکی ہوں۔ اور اب آپ کی حکومت کے جواب کی منتظر ہوں۔ ساتھ ہی میں آپ سے دعا کی درخواست گزار ہوں اور کہتی ہوں کہ اپنی اس پاکستانی بہن کو نہ بھلائیں جو دیار غیر میں مشکل ترین دن گزار رہی ہے۔ میں اپنی وطن واپسی سے زیادہ کچھ نہیں چاہتی جہاں کم از کم میں محفوظ اور اپنے بچوں کو تو دیکھ سکوں گی‘‘۔ تاہم نون لیگ حکومت کا پورا پانچ سالہ دور بھی گزر گیا۔ کچھ نہ ہو سکا اور بے بس ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی فریاد آہوں میں ڈھل کر رہ گئی۔
دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کی گہما گہمی شروع ہو چکی تھی۔ اس الیکشن میں جس پارٹی کے سربراہ نے ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا۔ وہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان تھے۔ اس سے قبل وہ اپنے انٹرویوز میں بھی ڈاکٹر عافیہ کی امریکی جیل میں موجودگی کو ایک بڑا المیہ قرار دے کر پچھلی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے کہ انہوں نے عافیہ کو واپس لانے کے لیے کچھ نہیں کیا اور ساتھ ہی اعلان کیا کہ تحریک انصاف اگر اقتدار میں آتی ہے تو قوم کی بیٹی کو واپس لائے گی۔
اور پھر تحریک انصاف اقتدار میں آگئی۔ عمران خان وزیر اعظم بن گئے۔ ڈاکٹر عافیہ کے معاملے کو لے کر پچھلی حکومتوں پر تیر چلانے والے عمران خان خود بھی بھول گئے کہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران کیا نعرہ لگایا تھا اور کیا وعدہ کیا تھا۔ چنانچہ انہیں یاد دلانے کے لئے بھی ڈاکٹر عافیہ کو جیل سے خط لکھنا پڑا۔
نومبر دو ہزار اٹھارہ میں یہ خط انہوں نے امریکی جیل میں ملاقات کرنے والے پاکستانی قونصل جنرل کے حوالے کیا تھا۔ جس میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا تھا ’’میں جیل سے باہر نکلنا چاہتی ہوں۔ کیونکہ میری قید غیر قانونی ہے۔ امریکہ مجھے اغوا کر کے لایا گیا تھا۔ آپ بطور وزیر اعظم پاکستان میری رہائی اور پاکستان واپسی کو یقینی بنائیں۔ آپ سے اس لئے زیادہ امید ہے کہ آپ ماضی میں میری حمایت کرتے رہے ہیں‘‘۔ لیکن مدد کی یہ پکار اس بار بھی قبرستان میں اذان دینے کے مترادف ثابت ہوئی۔
ایک برس یوں ہی گزر گیا۔ آخرکار ڈاکٹر عافیہ کی والدہ عصمت صدیقی کو عمران خان کے نام کھلا خط لکھنا پڑا۔ یہ خط دو ہزار انیس میں عمران خان کے بطور وزیر اعظم دورہ امریکہ سے چند روز پہلے لکھا گیا۔ جس میں ایک بیمار اور بوڑھی ماں نے کہا ’’موت سے ہمکنار ہوتی ایک ماں آپ سے درخواست کر رہی ہے کہ دورہ امریکہ میں عافیہ کی رہائی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کریں۔ مجھے آپ کو یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ میں کس قدر تکلیف اور کرب میں مبتلا ہوں۔ میں انتہائی رنجیدہ مگر نئی امیدوں کے ساتھ آپ سے اپنی بیٹی کو بچانے کی اپیل کرتی ہوں‘‘۔ لیکن اس درد بھرے خط کے باوجود عافیہ کی والدہ کی آس کا سورج طلوع نہ ہو سکا۔
وزیر اعظم کے طور پر عمران خان واشنگٹن پہنچ گئے۔ وائٹ ہائوس میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ان کی ملاقات بھی ہوئی۔ لیکن ماضی میں بلند بانگ دعوے کرنے والے ’’انقلابی رہنما‘‘ کی زبان پر عافیہ کا نام نہ آسکا۔ حتیٰ کہ اس ملاقات کے دوران ایک خاتون پاکستانی صحافی نے اس بارے میں سوال بھی کیا تو عمران خان بوکھلا گئے اور آئیں بائیں کر کے سوال ٹال دیا۔
اب عصمت صدیقی دنیا میں نہیں رہیں۔ وہ اپنی بیٹی کی راہ تکتے اس دار فانی سے کوچ کر چکی ہیں۔ یقینا انہوں نے اپنا مقدمہ سب سے بڑی اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش کر دیا ہو گا۔