حسام فاروقی:
رواں سال کراچی میں آتشزدگی کے 1670 چھوٹے بڑے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ عائشہ منزل پر واقع عرشی شاپنگ مال میں آتشزدگی سے 5 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ جبکہ 25 کروڑ سے زائد کا مالی نقصان ہوا ہے۔ آگ لگنے کی حتمی وجہ تاحال سامنے نہیں آسکی۔ ابتدائی طور پر وجہ شارٹ سرکٹ ہونا قرار دی جا رہی ہے۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے عرشی شاپنگ مال اور سینٹر کو رہائش کے قابل قرار دے کر ڈی سیل کر دیا ہے۔ مقدمہ آگ لگنے کی اصل وجہ سامنے آنے کے بعد درج کیا جائے گا۔ ادھر عرشی شاپنگ سینٹر میں کولنگ کا عمل وقفے وقفے سے رات گئے تک جاری تھا۔ واضح رہے کہ بدھ کی شام کراچی میں عائشہ منزل پر واقع عرشی شاپنگ مال اور رہائشی عمارت میں آگ لگی۔ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے نچلی منزل اور اوپر کی کئی منزلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بروقت اطلاع کرنے کے باوجود فائر بریگیڈ کا عملہ تاخیر سے پہنچا۔ جس کے سبب آگ بھجانے میں کافی وقت لگا۔ آتش زدگی کے اس واقعے میں پانچ افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ جن میں سے ایک لاش گزشتہ روز صبح رفاہی رضا کاروں کو جلی ہوئی دکان سے ملی۔
اس واقعے میں جاں بحق ہونے والوں میں غلام رضا ولد رجب علی، نعمان بیگ ولد مرزا امین بیگ، اسامہ ولد عبدالرحمن، ریاض ولد رمضان اور ایک نامعلوم شخص شامل ہے۔ جس کی شناخت کیلئے ڈی این اے سیمپل حاصل کرلیا گیا ہے۔ ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ آگ لگنے کے نتیجے میں شہریوں اور دکانداروں کا 25 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ یاد رہے کہ دکانوں میں موجود سامان کے علاوہ شاپنگ مال کے باہر موجود درجنوں موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں بھی آگ سے تباہ ہو گئی ہیں۔
آتشزدگی سے جاں بحق ریاض احمد اورنگی ٹائون کا رہائشی تھا۔ اس واقعے نے اس کے خاندان پر بجلی گرا دی ہے۔ ریاض احمد کی بیوہ کا میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ اب ہماری دیکھ بھال کون کرے گا۔ میرے بچوں کو اسکول کون بھیجے گا۔ حکومت صرف اعلانات کرتی ہے اور پھر غائب ہو جاتی ہے۔ کوئی ذمہ داری نہیں لیتا۔ اس غفلت کا عوام کو خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ مہربانی کرکے اس بار حکومت ٹھوس اقدامات کرے اور کچھ ایسا کرے کہ ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔ تاکہ کوئی عورت بیوہ نہ ہو اور بچے یتیم نہ ہوں‘‘۔
خوفناک آگ کا ایک اور شکار نعمان بیگ چار بچوں کا باپ تھا۔ واقعے کے وقت وہ اور اس کا بھائی بازار میں موجود تھے۔ نعمان بیگ کے بھائی عاصم بیگ کا کہنا تھا ’’میں تو اس خوفناک آگ سے بچ گیا۔ مگر میرا بھائی جان کی بازی ہار گیا‘‘۔ ایک اور جاں بحق شخص غلام رضا کا تعلق منگھوپیر کے علاقے سے تھا۔ اس کی نماز جنازہ ادا کرکے اسے مقامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔
آگ نے نہ صرف دکانداروں سے کاروبار چھین لیا۔ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان سے جینے کی امید بھی چھین لی۔ تکلیف میں مبتلا دکانداروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے انہیں معاوضہ نہ دیا گیا تو شاید وہ دوبارہ کبھی اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہو سکیں۔ انہوں نے کہا ’’جب آگ لگی تو ہم نے اپنی جان بچانے کیلئے باہر بھاگنا ہی بہتر سمجھا۔ ہم نے اپنی زندگیاں تو بچا لیں۔ مگر جمع پونجی سے کھڑا کیا کاروبار نہ بچا سکے۔ ہمارے پاس اب کچھ نہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں گھر والوں کو کیا کھلائیں گے اور بچوں کی تعلیم کیسے پوری ہوگی‘‘۔
دکانداروں کی طرح اپارٹمنٹس میں رہنے والوں کو بھی کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تمام متاثرہ افراد کو پناہ گاہیں اور خوراک کی پیشکش تو کی گئی ہے۔ مگر اس پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ متاثرہ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ’’کل رات سے ہم بے گھر ہیں۔ کچھ لوگ اپنے رشتہ داروں کے پاس رہنے گئے تھے۔ لیکن زیادہ تر لوگوں نے گزشتہ رات سڑک پر کاٹی۔ ہمارے پاس کرایہ پر یا نیا گھر خریدنے کے لیے پیسے نہیں۔ ایسے میں ہم اپنے بیوی بچوں اور بوڑھے والدین کے ساتھ کہاں جائیں گے۔ براہ کرم حکومت ہمارے فلیٹس کی تزئین و آرائش کرے اور ہمیں واپس جانے کی اجازت دے‘‘۔
دوسری جانب یہ بھی خدشات تھے کہ آگ کی وجہ سے عمارت کمزور پڑ گئی ہے اور کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔ اس لیے عمارت کو سیل کر دیا گیا تھا۔ تاہم سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA) کے ابتدائی معائنے کے نتائج میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ مذکورہ عمارت تجارتی اور رہائشی مقصد کیلئے موزوں ہے اور اسے متعلقہ ادارے نے ڈی سیل کر دیا گیا ہے۔
نگراں وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے عائشہ منزل کا دورہ کیا اور عمارت کا جائزہ لیا۔ آگ سے متاثرہ مکینوں اور دکانداروں سے بھی ملاقات کی۔ ڈپٹی کمشنر نے انہیں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 74 اپارٹمنٹس اور 130 دکانیں شدید متاثر ہوئی ہیں۔ جبکہ پانچ افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں اور تین زخمی ہیں۔ جبکہ ڈسٹرکٹ سینٹرل کے ایس ایس پی فیصل عبداللہ چاچڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آگ لگنے کی وجہ فوری طور پر معلوم نہیں ہوسکی۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ آگ بجلی کے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی۔
انہوں نے کہا کہ بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے جس کا تخمینہ باقی ہے۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کی جائے گی۔ جس کی سفارشات پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اسی طرح چیف فائر آفیسر (سی ایف او) اشتیاق احمد نے بھی کہا کہ آگ ی اطلاع فائر بریگیڈ ڈیپارٹمنٹ کو تاخیر سے دی گئی۔ جب آگ چوتھی منزل پر پہنچی تو فائر بریگیڈ کو بلایا گیا۔ لوگوں میں آگاہی کی کمی ہے اور انہیں فائر بریگیڈ کا نمبر بھی نہیں معلوم۔ آگ لگنے کے واقعات میں پہلے پانچ سے دس منٹ اہم ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ عمارت میں آگ بجھانے کا کوئی سامان نہیں تھا اور عمارت سے ہنگامی انخلا کا کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔ جبکہ عمارت میں موجود تمام اشیا انتہائی آتش گیر تھیں۔ ہم پانچ سے سات منٹ ٹریفک میں بھی پھنسے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سال چھوٹے بڑے پیمانے پر آگ لگنے کے 1670 واقعات ہوئے ہیں۔ جبکہ شہر میں 28 فائر اسٹیشن کام کر رہے ہیں۔ لاکھوں کی آبادی والے شہر میں مثالی طور پر ایک لاکھ کی آبادی پر ایک فائر اسٹیشن ہونا چاہیے۔