امت رپورٹ:
العزیزیہ کیس میں فوری بریت نواز شریف کے لیے نہایت اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ اب سابق وزیراعظم کے آئندہ الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے سے جڑ گیا ہے۔
واضح رہے کہ خود ساختہ جلاوطنی کاٹ کر لندن سے نواز شریف پاکستان پہنچے تھے تو انہیں دو اہم کیسز میں بریت درکار تھی۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں انہیں دس برس قید کی سزا ہوئی تھی۔ جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں سات سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ تاہم اس برس نومبر کے آخر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ کیس میں نواز شریف کو بری کرتے ہوئے احتساب عدالت کی سزا کالعدم قرار دے دی تھی۔
اب نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں بریت درکار ہے، تاکہ آئندہ الیکشن میں ان کے حصہ لینے کی راہ ہموار ہو جائے۔ یاد رہے کہ یہ وہی کیس ہے جس میں جج ارشد ملک کا ویڈیو وائرل ہوا تھا، جس میں وہ اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ انہوں نے یہ سزا دبائو پر سنائی تھی۔ تاہم اس سزا کے خلاف دائر اپیل کی گزشتہ سماعت میں نواز شریف کے وکیل امجد پرویز، ویڈیو کے حوالے سے دائر درخواستوں کی پیروی سے دستبردار ہوگئے۔
قانونی ماہرین کے بقول جج کی ویڈیو سے متعلق درخواستوں کی پیروی سے نون لیگ کو یہ خدشہ تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ یہ مقدمہ دوبارہ سننے کے لیے ٹرائل کورٹ کو بھیج سکتی ہے۔ چنانچہ اس صورت حال سے بچنے کے لیے جج کی ویڈیو سے متعلق درخواستوں کی پیروی سے انکار کیا گیا۔ اگرچہ ٹرائل کورٹ سے بھی یہ سزا کالعدم ہونے کا واضح امکان تھا، تاہم نون لیگ کو خدشہ تھا کہ اس کے نتیجے میں قانونی کارروائی طوالت اختیار کر سکتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب آئندہ انتخابات کا شیڈول جاری ہونے والا ہے، نون لیگ کسی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتی۔ چنانچہ نواز شریف کے وکیل نے درخواست کی کہ مقدمہ ٹرائل کورٹ کو بھیجنے کے بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ خود میرٹ پر فیصلہ کرے۔
ذرائع کے بقول نون لیگ سمجھتی ہے کہ خاص طور پر جج ارشد ملک کی ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سنائی جانے والی سزا ناصرف مشکوک ہو چکی ہے، بلکہ انتہائی کمزورگرائونڈ سنائی گئی تھی۔ لہٰذا اس میں بھی نواز شریف کی بریت یقینی ہے۔ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کے وکیل کی استدعا قبول کرتے ہوئے اگلی سماعت بارہ دسمبر کو مقرر کی تھی۔
یوں بارہ دسمبر کا دن نواز شریف کے سیاسی مستقبل کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ اگر اس روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس کی طرح العزیزیہ کیس کی سزا بھی کالعدم قرار دے دی تو نواز شریف کے لیے آٹھ فروری کو شیڈول انتخابات میں حصہ لینے کی آخری رکاوٹ بھی دور ہو جائے گی۔ تاہم اگر سماعتوں کا سلسلہ دراز ہوتا ہے تو نواز شریف کے جنرل الیکشن میں حصہ لینے کے آگے سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق ویسے تو نون لیگی قیادت کو امید ہے کہ بارہ دسمبر کی سماعت میں ہی العزیزیہ میں نواز شریف کی سزا کالعدم قرار دے دی جائے گی۔ اگر ایسا نہ بھی ہوا تو اگلی ایک دو سماعتوں میں یہ قصہ ختم ہو جائے۔ نون لیگ ہر صورت چودہ، پندرہ دسمبر تک پہلے العزیزیہ کیس میں نواز شریف کی بریت چاہتی ہے۔ تاکہ وہ اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرا سکے۔ چودہ یا پندرہ دسمبر تک الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی شیڈول کا اعلان متوقع ہے۔
قواعد و ضوابط کے مطابق الیکشن کمیشن کو پولنگ ڈے سے کم از کم چوّن روز پہلے انتخابی شیڈول کا اعلان کرنا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ چودہ یا پندرہ دسمبر کو اس شیڈول کا اعلان کر دے، آٹھ فروری کو پولنگ ڈے تک یہ چوّن روز بنتے ہیں۔ انتخابی شیڈول کے تحت پہلے مرحلے میں ریٹرننگ افسران پبلک نوٹس جاری کرتے ہیں اور امیدوار الیکشن کمیشن سے کاغذات نامزدگی وصول کرتے ہیں۔ جس کے بعد امیدواروں کو چار، پانچ روز کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ پھر امیدواروں کے نام شائع کیے جاتے ہیں۔
قریباً ایک ہفتہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل ہوتا ہے۔ بعد ازاں ریٹرننگ افسروں کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کے لیے چار پانچ روز دیے جاتے ہیں۔ چند روز بعد امیدواروں کی حتمی فہرست آویزاں کر دی جاتی ہے۔ اور اگلے روز ہی انہیں انتخابی نشان الاٹ کر دیے جاتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ سارا عمل عموماً ایک ماہ کے اندر تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ تاہم کاغذات نامزدگی وصول اور جمع کرانے کا مرحلہ انتخابی شیڈول کے اعلان کے دوسرے تیسرے روز شروع ہو کر لگ بھگ ایک ہفتے سے کم وقت میں اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔
اگر اگلے الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن پاکستان چودہ یا پندرہ دسمبر کو انتخابی شیڈول کا اعلان کرتا ہے تو زیادہ سے زیادہ سترہ دسمبر کو کاغذات نامزدگی کی وصولی کا عمل شروع ہو جائے گا اور بیس، اکیس دسمبر تک امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرا سکیں گے۔ اس منظرنامے کو سامنے رکھا جائے تو دیگر امیدواروں سمیت نواز شریف کے پاس بھی اگلے الیکشن میں اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے محض بارہ، تیرہ دن باقی بچتے ہیں۔
اسی لیے نون لیگ کی کوشش ہے کہ العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا اگلی ایک دو سماعت میں ختم کرالی جائے۔ بصورت دیگر پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ نون لیگی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بہت زیادہ امکان ہے کہ بارہ دسمبر کی سماعت میں ہی نواز شریف کی سزا کالعدم قرار دے دی جائے گی۔ ورنہ اگلی ایک دو سماعتوں میں انہیں بریت مل جائے گی۔ دیکھنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اس حوالے سے کیا فصلہ کرتا ہے اور نون لیگ کی امیدیں کتنی پوری ہوتی ہیں۔