عمران خان :
ایف آئی اے کو انتہائی مطلوب 156 انسانی اسمگلروں کی اکثریت برسوں سے بیرون ملک روپوش ہے۔ یونان کشتی حادثے کے مرکزی ملزمان بھی انٹرپول کے ذریعے لیبیا اور یورپ سے نہیں لائے جا سکے۔ ایف آئی اے کی کارروائیاں صرف ملک میں موجود سب ایجنٹوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔
رواں برس سینکڑوں اموات کا باعث بننے والے کشتی حادثات کے بعد بیرون ملک انسانی اسمگلنگ کے عالمی نیٹ ورک سے منسلک مقامی سرغنوں کے پاکستان میں بنائے گئے اثاثے منجمد کرکے انہیں نقصان پہنچانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ تاہم وقت کے ساتھ اس معاملے کو بھی دبا دیا گیا اور اب تک ان ملزمان کے خلاف انسانی اسمگلنگ کے کیسز میں منی لانڈرنگ کی کارروائیاں شروع نہیں کی گئیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق رواں برس ستمبر 2023ء میں جاری ہونے والی انتہائی مطلوب انسانی اسمگلروں کی ریڈ بک کے مطابق ایف آئی اے کو اس وقت مجموعی طور پر 156 ملزمان انتہائی مطلوب ہیں۔ جن میں 8 خواتین بھی شامل ہیں۔ اس نئی فہرست میں لیبیا، ترکی، یونان سمیت یورپی ممالک میں موجود ان انسانی اسمگلروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ جنہوں نے حالیہ عرصہ میں بحیرہ روم میں ہونے والی کشتیوں کے حادثات میں جاں بحق ہونے والے سینکڑوں غیر قانونی تارکین وطن کو پنجاب اور کشمیر کے مختلف علاقوں سے اپنے سب ایجنٹوں کے ذریعے بلاکر کروڑوں روپے کی رقوم بٹوریں۔ مذکورہ انتہائی مطلوب انسانی اسمگلروں کے خلاف ایف آئی اے کے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکلز میں 300 سے زائد مقدمات درج ہیں۔
ایف آئی اے لاہور زون کو 20، گوجرانوالہ زون کو 71، فیصل آباد زون کو 12، ملتان زون کو 3، اسلام آباد زون کو 34، کراچی زون کو 12، اور بلوچستان و خیبرپختون زون کو 2، 2 انسانی اسمگلرز مطلوب ہیں۔ ایف آئی اے کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری کیلئے اب تک جو کوششیں کی گئیں۔ ان میں ملزمان کے قومی شناختی کارڈز اور پاسپورٹ بلاک کرواکے بلیک لسٹ کر دیئے گئے ہیں۔ تاکہ وہ ایئرپورٹوں سے آتے جاتے گرفتار کئے جا سکیں ۔اس کے ساتھ ہی ان کے خلاف درج مقدمات، عدالتی فیصلے اور کوائف انٹر پول کو بھی فراہم کر دیئے گئے ہیں۔ تاکہ ان کیسوں کی بنیاد پر انہیں بیرون ملک سے گرفتار کرکے وطن واپس لایا جاسکے۔
ایف آئی اے ذرائع کے مطابق اس حوالے سے وفاقی ادارے کی کارروائیاں صرف مقامی سطح پر سرگرم اسمگلروں تک ہی محدود ہیں۔ جو بیرون ملک روپوش مرکزی سرغنوں کیلئے سب ایجنٹوں کے طور شہریوں کو یورپ کے سہانے خواب دکھا کر پھانسنے کا کام کر رہے ہیں۔ جبکہ لیبیا، ترکی اور دیگر ممالک میں اصل ویلِڈ وزٹ ویزوں پر بلاکر غیر قانونی طور پر یورپی ممالک منتقل کرنے کا کام بیرون ملک روپوش ملزمان ہی کر رہے ہیں۔
گزشتہ روز ایف آئی اے کی ایک کارروائی کے حوالے سے بتایا گیا کہ غیرقانونی طریقے سے شہریوں کو لیبیا سے یونان بھیجنے والے نیٹ ورک کے ایک مرکزی ملزم عتیق بٹ کو گرفتار کیا گیا۔ ملزم یونان کشتی حادثے کے بعد شروع ہونے والی تحقیقات میں گرفتار ملزمان سے تعلق کے شواہد سامنے آنے پر پکڑا گیا۔ ایف آئی اے کے مطابق گرفتار ملزم انسانی اسمگلنگ گینگ کا اہم کارندہ ہے۔ ملزم کے بینک اکاؤنٹ میں انسانی اسمگلنگ کے 67 لاکھ روپے ٹرانسفر ہوئے ہیں۔ ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ جبکہ ساتھیوں کی گرفتاری کیلیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
واضح رہے کہ رواں برس جون کے وسط میں یونان کے قریب بحیرہ روم میں 750 تارکین وطن پر مشتمل کشتی ڈوب گئی تھی۔ جس میں سینکڑوں اموات ہوئیں۔ اس کشتی پر تقریباً 400 پاکستانی، 200 مصری اور 150 شامی (جن میں 2 درجن کے قریب شامی خواتین اور چھوٹے بچے بھی شامل تھے) سفر کر رہے تھے۔ حادثے کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے ایف آئی اے کو پاکستان سے لیبیا بھجوانے والے انسانی اسمگلروں کے خلاف ملک گیر کریک ڈائون کی ہدایات کی گئی تھیں۔ بعد ازاں پنجاب اورکشمیر کے متاثرین کے حوالے سے 200 کے قریب انکوائریاں اور مقدمات درج کیے گئے۔ آگے چل کر 86 ملزمان کا سراغ لگایاگیا۔ جن میں سے 60 کے قریب ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔ یہ تمام بیرون ملک مقیم انسانی اسمگلروں کے سب ایجنٹ تھے۔ جو یہاں سے بندے بھجواکر لاکھوں روپے وصول کر رہے تھے۔
ان کارروائیوں میں انتہائی مطلوب انسانی اسمگلروں کی ایف آئی اے ریڈ بک میں شامل صرف ایک ہی ملزم جاوید حسین کو گرفتار کیا جاسکا۔ ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ ملزم جاوید حسین ایف آئی اے گجرات سرکل کو 7 مقدمات میں مطلوب تھا۔ ملزم یونان کشتی حادثے کے بعد روپوش ہو گیا تھا۔ وہ لیبیا میں مقیم انتہائی مطلوب ملزم حمزہ سنارے کا فرنٹ مین ہے۔ ملزم جاوید اورگجرات سے گرفتار ہونے والے ایک دوسرے ملزم نے انکشاف کیا کہ تین بھائی لیبیا سے یورپ کا سب سے بڑا نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ ان میں آصف سنارا اور فیصل سنارا شامل ہیں۔ جبکہ سلیم سنارا گجرات میں ان کا مرکزی ایجنٹ ہے۔
اسی طرح جلال پور جٹاں کے تین بھائی جن میں بلال اور افضل لیبیا میں، جبکہ قیصر پاکستان میں سرگرم ہے۔ اسی طرح گوجرانوالہ کے باپ بیٹا عبداللہ اور منور بھی لیبیا میں سرگرم ہیں۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق یہ گروہ انٹرنیشنل گروپ کے ساتھ کام کرتا ہے۔ جس میں پاکستانی، مصری اور لیبیا کے انسانی اسمگلرز شامل ہیں۔
ذرائع کے بقول اس وقت بھی مطلوب 156 کے قریب انسانی اسمگلرز میں سب سے زیادہ تعداد پنجاب کے علاقوں گوجرانوالہ اور گجرات سے تعلق رکھتی ہے اور ان کی اکثریت سب ایجنٹوں پر مشتمل ہے۔ ان کے قریبی عزیز انسانی اسمگلنگ کے سرغنوں کے طور پر لیبیا، یونان، اٹلی، اسپین وغیرہ میں 80 اور 90 کی دہائی سے مستقل طور پر رہائش پذیر ہیں۔ تاہم ایف آئی اے کی جانب سے بارہا یاددہانی کے باجود انٹرپول کی جانب سے ان ملزمان کو پکڑنے اور واپس دینے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
’’امت‘‘ کو یونان میں موجود ذرائع نے بتایا کہ یہ ملزمان یورپی ممالک میں پاکستانی کمیونٹی میں بااثر ہیں اور ان کا سوشل بیک گرائونڈ مضبوط ہے۔ جبکہ ان کے سفارت خانوں اور کونسل خانوں میں بھی مراسم ہیں۔ جس کی وجہ سے ایف آئی اے کو مشکلات کا سامنا ہے۔