کراچی میں سافٹ ویئر کمپنی کی آڑ میں سرگرم رہے،فائل فوٹو
کراچی میں سافٹ ویئر کمپنی کی آڑ میں سرگرم رہے،فائل فوٹو

کروڑوں کا چونا لگانے والی نوسرباز فیملی پکڑی گئی

عمران خان:
کراچی کے بینکوں میں 10 برس تک جعلسازی سے شہریوں کے اکائونٹس سے رقوم نکلوانے کا نیٹ ورک چلانے والے خاندان اور اس سے جڑے ملزمان کا پورا نیٹ کس انداز میں چلایا جاتا رہا۔ اس ضمن میں ایف آئی اے کی تحقیقات میں اہم شواہد حاصل کرلیے گئے ہیں اور ملزمان کے خلاف 25 کروڑ روپے سے زائدکی وارداتوں کا ڈیٹا اور ٹرانزیکشنز جع کرکے کیسز کو فائلوں کا حصہ بنایا جا چکا ہے۔

’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل کراچی نے نجی بینکوں کے کھاتے داروں کے اکائونٹس پر ہاتھ صاف کرنے والے بینک افسران اور ان کے رشتہ داروں کے خلاف کروڑوں روپے کے فراڈ کے ثبوت حاصل کرلیے۔

تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ ملزمان گزشتہ 10 برس سے نجی بینکوں سے منسلک ہیں۔ جس میں ادیبہ نامی بینک منیجر کو ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ دیگر ملزمان میں اس کے شوہر راجہ عادل، بھائی شکیل، برانچ منیجر مسعید مظہر حسن صدیقی اور آپریشنل منیجر فہد عالم خان اور دیگر کو مرکزی ملزمان قرار دیا گیا۔

ایف آئی اے کے مطابق ماسٹر مائنڈ ادیبہ نے اب تک 6 مختلف بینکوں میں برانچ منیجرکے طور پر کام کیا۔ اس کے اور خاندان کے دیگر افراد کیخلاف شہر کے مختلف تھانوں میں بھی 11 مقدمات درج ہوئے۔ ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل کراچی کی ٹیم نے طویل تحقیقات کے بعد ثبوت اور شواہد سامنے آنے کے بعد ملزمان کے اس گروپ کے خلاف اب تک 5 کیس باقاعدہ بنائے۔ جن میں 2 مقدمات اور 3 انکوائریاں درج کی گئیں۔

تفتیش میں سامنے آیا کہ متعدد نجی بینکوں کی انتظامیہ اور اعلیٰ افسران نے صرف اپنے بینکوں کا سرمایہ بڑھانے کیلیے اس خاندان کے افراد کو مسلسل ملازمتیں دیں۔ حالانکہ انہیں معلوم ہوتا رہا کہ یہ فراڈ میں دوسرے بینکوں سے نکالے گئے ہیں اور ان کا کرمنل ریکارڈ موجود ہے۔ ایک جانب ان ملزمان کے حوالے سے برسوں انکوائریاں چلتی رہیں اور دوسری طرف یہ دوسرے بینکوں میں ملازمتیں بھی کرتے رہے۔ اسی دوران ایک بینک میں فراڈ کی وارداتیں کرنے کے بعد دوسرے بینک میں باآسانی ملازمت حاصل کرلیتے۔

دستاویزات کے مطابق اس گروپ کے حوالے سے گزشتہ برس کراچی کے ایک شہری فیضان نے ایف آئی اے حکام کو درخواست دی تھی۔ جس کے مطابق انہیں ایک نجی بینک کی برانچ منیجر ادیبہ نے اپنی برانچ میں ٹرم ڈپازٹ سرٹیفکیٹ کی سرمایہ کاری کیلئے کہا۔ جس پر انہوں نے چار کروڑ 70 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی۔ تاہم بعد ازاں معلوم ہوا کہ ان کے نام پر کوئی ٹرم ڈپازٹ سرٹیفکیٹ موجود ہی نہیں۔

فراڈ کے سامنے آنے پر جب ایف آئی اے نے انکوائری شروع کی تو معلوم ہوا کہ برانچ منیجر ادیبہ نے برانچ منیجر مسعید مظہر حسن صدیقی اور آپریشنل منیجر فہد عالم خان، ملازمین اسامہ اور ریحان کی مدد سے مذکورہ رقم دیگر کھاتوں میں ٹرانسفرکردی تھی۔ اس کیلئے جعلسازی سے کام لیا گیا اور یہ رقم فائزہ عمران، ادیبہ، برہان احمد، خالد، جان محمد مظفر تالپور اور عبداللہ خان کے اکائونٹس میں منتقل ہوئی۔ جہاں سے ان کو کیش کرالیا گیا یا پھر دیگر اکائونٹس میں ٹرانسفر کردیا گیا۔ ثبوت اور شواہد سامنے آنے پر ادیبہ، اس کے شوہر عادل راجہ ولد راجہ معروف برانچ منیجر مسعید مظہر حسن صدیقی اور آپریشنل منیجر فہد عالم خان اور دیگر کے خلاف مقدمہ درج کرکے برانچ منیجر ادیبہ کو گرفتار کیا گیا۔

اسی دوران ادیبہ کے خلاف ایک اور نجی بینک میں 2 کروڑ 40 لاکھ کے فراڈ کے ثبوت سامنے آنے پر اسی سرکل میں ایک اور مقدمہ درج کیا گیا۔ ایف آئی اے نے مقدمات میں ان کھاتے داروں اور بینک ملازمین کے اعترافی بیانات بھی شامل کیے۔ جن کے اکائونٹس میں برانچ منیجر ادیبہ نے رقم منتقل کیں۔

طارق روڈ پر کپڑوں کا کاروبار کرنے والے جان محمد ولد نور محمد نے بیان دیا کہ یو بی ایل کھڈا مارکیٹ کے برانچ منیجراعجاز نے ادیبہ سے ملاقات کروائی تھی جو برج بینک میں برانچ منیجر کے طور پر کام کرتی تھی۔ اس دوران ادیبہ اکثر اس سے لاکھوں روپے ادھار لیتی۔ ایک بار ادیبہ نے 35 لاکھ مانگے اور پھر واپس کرنے کیلئے پے آرڈر دیا۔ لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ پے آرڈر فیضان نامی شخص کے اکائونٹ کا ہے۔ کیونکہ وہ ادیبہ کو جانتا ہے اور اس کا فیضان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

اسی طرح پھر 15 لاکھ ادھار لئے اور وہ بھی اسی طرح کے پے آرڈر سے واپس کیے۔ جبکہ گارڈن ایسٹ میں قسطوں پر سامان فروخت کرنے والے تاجر خالد کے مطابق ادیبہ سے اس کی ملاقات اس کے چچا حکیم خان نے کرائی تھی۔ ادیبہ یو بی ایل، دبئی اسلامک بینک اور الفلاح بینک کی برانچوں میں منیجر کے طور پر کام کرچکی ہے۔ اس نے ایک بار اس سے 43 لاکھ روپے ادھار مانگے اور پھر پے آرڈر کے ذریعے واپس کیے۔

جبکہ عبداللہ خان ولد فرید اعظم خان نے بیان دیا کہ انہوں نے 2014ء میں برج بینک نارتھ ناظم آباد برانچ میں ملازمت اختیار کی۔ جہاں برانچ منیجر ادیبہ تھی۔ بعد ازاں ادیبہ دبئی اسلامک بینک نارتھ ناظم آباد برانچ چلی گئی اور اس نے مجھے بھی وہاں بلوا لیا۔ یہاں پر بھی میں نے ادیبہ برانچ منیجر کے ماتحت کام کیا۔

اس دوران ادیبہ نے اس سے 17 لاکھ ادھار لئے اور پھر 10 لاکھ روپے مانگے۔ یہ رقم واپس کرنے کیلئے اس نے ایک 70 لاکھ کا پے آرڈر دیا اور کہا کہ 27 لاکھ اپنے واپس لو اور 40 لاکھ مجھے واپس ٹرانسفر کردو۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ فیضان نامی شخص اس کا جاننے والا ہے۔ جس کے اکائونٹ کی رقم وہ مجھے ٹرانسفر کر رہی تھی۔ اسی طرح تعمیراتی شعبے سے منسلک بلڈر برہان ولد مشتاق نے بیان دیا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ شہر میں پلاٹ خرید کر مکان بنا کر فروخت کرنے کا کام کرتا ہے۔

اس سلسلے میں ان کی ملاقات سندھ بینک کی گلشن چورنگی برانچ کے منیجر اقبال سے ہوئی۔ جنہوں نے اصرار کیا کہ انہی کی برانچ میں بزنس اکائونٹ کھلوائیں۔ بعد ازاں اقبال نے ہی ہماری ادیبہ سے ملاقات کروائی۔ جس نے مجھ سے 30 لاکھ روپے ادھار مانگے اور پھر واپس دینے کیلئے فیضان کے اکائونٹ سے رقم ٹرانسفر کی۔ جسے وہ نہیں جانتا۔

برانچ آپریٹر ریحان نے بیان دیا کہ فیضان نامی شخص کے بینک اکائونٹ کے پے آر ڈر برانچ منیجر مسعید مظہر حسن صدیقی اور آپریشنل منیجر فہد عالم خان دیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کی انٹری کردو۔ اسامہ احمد فاروقی ولد نسیم احمد فاروقی نے بیان دیا کہ ادیبہ نے اس کے ذریعے اب تک درجنوں بار مختلف بینک کھاتوں سے رقوم نکلوائیں اور ڈپازٹ کروائیں۔ اس کیلئے رقم بھی ادیبہ دیتی تھی۔ جن کھاتوں سے رقوم نکلوانے کیلئے ادیبہ چیک لکھ کر دیتی۔ وہ رقم نکال کر ادیبہ کو ہی لاکر دیتا تھا۔

اسی طرح عمران گلزار احمد ولد گلزار احمد نے بیان دیا کہ وہ بینک الفلاح نارتھ ناظم آباد برانچ میں ہے۔ اس نے ادیبہ کے کہنے پر کئی بینک کھاتوں میں آن لائن ڈپازٹ کروائے جس کیلئے رقم اس کو ادیبہ ہی دیتی تھی۔ ایف آئی اے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ادیبہ نے اپنے شوہر راجہ عادل کے ساتھ ایک مشترکہ اکائونٹ کھلوایا ہوا تھا، جس میں صرف ڈیڑھ برس میں 6 کروڑ روپے سے زائد ڈلوائے گئے اور نکالے گئے۔

اسی طرح مجموعی طور پر 9 کروڑ 70 لاکھ روپے کی رقم جعلی چیکوں کے ذریعے ادیبہ کے شوہر راجہ عادل نے اپنے اکائونٹ میں ٹرانسفر کی اور نکلوائی۔ جس کی علیحدہ انکوائری درج ہوئی۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بینکوں سے لئے گئے ریکارڈ کی فارنسک جانچ پڑتال کی رپورٹیں اسلام آباد فارنسک لیبارٹری سے موصول ہوئیں۔ جن میں بتایا گیا کہ ان چیکوں پر دستخط اور تحریر ادیبہ کے شوہر راجہ عادل کی تحریر سے مماثلت رکھتی ہے۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ اس نیٹ ورک کے خلاف مختلف لوگوں نے شہر کے مختلف تھانوں میں فراڈ کے 11 مقدمات درج کروائے۔