ارشاد کھوکھر:
سینکڑوں افراد کے ماورائے عدالت قتل کے الزامات کا سامنا کرنے والے سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوار کے بہت سے ہوشربا انکشافات ابھی ہونا باقی ہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے زیادہ تر ان باتوں کا ذکر کیا ہے جو پہلے ہی عوام کے علم میں تھیں۔ تاہم رائو انوار کی اپنی زبانی ان باتوں کی اپنی زبانی تصدیق کرنے کی بات اہمیت کی حامل ہے۔
انٹرویو میں انہوں نے پی پی پی قیادت کے جس سسٹم کی بات کی ہے۔ نقیب اللہ قتل کیس سے قبل وہ خود اس سسٹم کا اہم حصہ رہے ہیں۔ رائو انوار جس لینڈ گریبر کا نام لیے بغیر بات کر رہے ہیں وہ علی حسن بروہی ہیں۔ اور انہیں پتا ہے کہ علی حسن بروہی ’’آئوٹ‘‘ ہونے کے بعد دوبارہ سسٹم میں ’’اِن‘‘ کیسے ہوا اور اس میں خود رائو انوار کا کیا کردار رہا اور عذیر بلوچ اور نثار مورائی کے خلاف جے آئی ٹی بنانے کا اصل مقصد کیا تھا۔ اور انہوں نے خود ان جے آئی ٹی رپورٹس پر دستخط کیوں نہیں کئے۔ دراصل رائو انوار کا انٹرویو پی پی پی کی قیادت کے لئے کسی کا پیغام ہے۔ معاملات نہیں بنے تو پھروہ ایک انٹرویو کے ذریعے مزید انکشافات کرسکتے ہیں۔
اس ضمن میں اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ رائو انوار نے کس کے کہنے پر یہ انٹرویو دیا ہے وہ پی پی پی قیادت کے جس سسٹم کی بات کر رہے ہیں اس سسٹم کا وہ خود اہم ترین کردار رہے ہیں۔ جس میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ ، ریتی بجری کا غیر قانونی کاروبار ، لینڈ گریبنگ سمیت دیگر معاملات شامل ہیں۔ جہاں تک بحریہ ٹائون کے لئے زمین خالی کرانے کی بات ہے، تو اس میں بھی اہم کردار رائو انوار کا رہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اپنے انٹرویو میں انہوں نے نام لئے بغیر جس بڑے لینڈ گریبر کی بات کی ہے وہ علی حسن بروہی ہیں۔ جو پہلے ضلع ملیر اور ضلع شرقی میں یہ کام کرتا تھا۔
بعد ازاں انہیں ضلع غربی میں مذکورہ کام کی ذمہ داری دی گئی۔ ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ علی حسن بروہی پہلے جب سسٹم کا حصہ بنے تو انہوں نے پی پی پی کی قیادت کو بھی چکمہ دیا۔ اور سسٹم سے حاصل بھاری رقم اوپر نہیں پہنچائی۔ جس کے بعد وہ دو ڈھائی ماہ غائب رہے۔ اس کے غائب ہونے کا معاملہ بھی کسی فلمی سین سے کم نہیں۔ کیونکہ وہ خود غائب نہیں ہوئے تھے۔ یہ رائو انوار ہی تھے جنہوں نے انہیں اٹھاکر ایک فارم ہائوس میں قید کردیا تھا۔ اور سرکاری طور پر اس کی گرفتاری نہیں ظاہر کی گئی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ فارم ہائوس کے سیکورٹی اہلکاروں کو چکمہ دے کر بروہی بھاگ نکلے جس کے بعد رائو انوار نے انہیں ٹریس کرکے اسلام آباد میں رنگ رلیاں مناتے ہوئے گرفتار کرلیا۔ جس کے بعد نہ صرف رقم کی وصولیاں بھی ہوئیں بلکہ بعد ازاں علی حسن بروہی اعتماد حاصل کرکے دوبارہ سسٹم میں شامل ہوگئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ نے عذیر بلوچ اور نثار مورائی کے خلاف جو جے آئی ٹی تشکیل دی تھی، اس کا اصل مقصد پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت خصوصاً آصف علی زرداری کو کلین چٹ دینا تھا۔ اس حکمت عملی میں رائو انوار بھی شامل تھے۔ مذکورہ جے آئی ٹیز میں عذیر بلوچ نے اپنے بیان میں پی پی پی قیادت پر کرپشن کے بڑے الزامات عائد کئے۔ تاہم جے آئی ٹی کی جب رپورٹ تیار کی گئی تو اس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ جو تحقیق ہوئی ہے اس میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے کرپشن میں براہ راست ملوث ہونے کے شواہد سامنے نہیں آئے۔
مذکورہ جے آئی ٹی میں دیگر افسران کے ساتھ رائو انوار بھی اس کے ممبر تھے۔ جب مرحلہ جے آئی ٹی رپورٹ پر دستخط کرنے کا آیا تو انہیں ایک پیغام ملا کہ وہ جے آئی ٹی رپورٹ پر دستخط نہ کریں اور انہوں نے تابع داری سے ایسا ہی کیا۔ قانون کے مطابق جے آئی ٹی رپورٹ پر اگر کوئی ایک ممبر بھی دستخط نہ کرے تو وہ رپورٹ پینڈنگ میں چلی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں جے آئی ٹی ازسرنو ہوسکتی ہے۔
اس طرح رائو انوار کے دستخط نہ کرنے کے باعث پی پی پی کی قیادت جو کلین چٹ چاہتی تھی، اسے وہ نہیں مل سکی۔ یہ بات پی پی پی کی قیادت کو تھوڑی ناگوار لگی تھی۔ لیکن اس کے باوجود بھی رائو انوار پی پی پی کے سسٹم کا حصہ رہے۔ لیکن جنوری 2018ء میں نقیب اللہ قتل کیس کے بعد رائو انوار کو جب معطل کیا گیا اور اس کے بعد اس کی گرفتاری اور چند ماہ روپوشی کے بعد جب وہ نمودار ہوئے اس کے بعد وہ مذکورہ سسٹم سے دور ہوگئے۔ ورنہ پہلے ایسے نہیں ہوتا تھا ۔
ذرائع نے بتایا کہ اس بات کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ رائو انوار کو دو مرتبہ ایس ایس پی ملیر کے عہدے سے ہٹنا پڑا جن میں سے ایک مرتبہ انہیں متحدہ کے خلاف پریس کانفرنس کرنے پر پیپلز پارٹی کی قیادت دکھاوے کی خاطر انہیں ہٹانے پر مجبور ہوئی۔ لیکن ایس ایس پی ملیر کے عہدے پر تعینات نہ ہونے کے باوجود بھی مذکورہ ضلع میں سارا سسٹم انہی کے کنٹرول میں رہتا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی جانب سے جب اپنے مخالف سیاسی جماعتوں پر اپنی تقاریر اور بیانات میں تابڑتوڑ حملے شروع کئے گئے تو پی پی پی کے چیئرمین کو مقتدر حلقوں کی جانب سے اہم پیغام دیا گیا تھا کہ اس نوعیت کے بیانات سے اجتناب کیا جائے۔ ملک اس نوعیت کی سیاست کا متحمل نہیں۔ اس سلسلے میں آصف علی زرداری نے یقین دہانی کرائی تھی، لیکن اس کے باوجود بھی بلاول بھٹو کی جانب سے وہی رویہ جاری رکھنے پر خود آصف علی زرداری نے اپنے انٹرویو میں بلاول بھٹو کے لئے جو باتیں بھی کیں۔
اسی پس منظر میں کی تھیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ رائو انوار کا انٹرویو بھی اسی پیغام کے پس منظر میں ہوسکتا ہے۔ پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے کرائی گئی یقین دہانی پر عملدرآمد نہیں ہوا تو رائو انوار ایک اور انٹرویو دے سکتے ہیں، جس میں بڑے انکشافات ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ مذکورہ سسٹم میں کام کرنے والے کسی اور شخص کے پاس اتنے راز نہیں ہیں جتنے رائو انوار کے پاس ہیں۔