عمران خان :
کسٹمز کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی بے خبری اور نجی بینکوں کی ملی بھگت سے سریا اور دیگر مصنوعات بنانے والی کئی نجی ملوں کے مالکان ملک کو بدترین معاشی صورتحال میں دھکیلنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ رواں برس کے وسط میں معاشی زبوں حالی کے دوران صرف اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لئے قومی خزانے کو زر مبادلہ کی مد میں بھاری نقصان پہنچایا گیا۔ ان وارداتوں میں ان اسٹیل ملوں کے مالکان کو بعض کلیئرنگ ایجنٹوں کا بھرپور تعاون حاصل رہا جنہوں نے نجی بینکوں کے برانچ منیجرز کے ساتھ ملی بھگت کرکے دستاویزات تیار کیں اور خوب مال بٹورا۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی معلومات کے مطابق کسٹمز اپریزمنٹ پورٹ قاسم، اپریزمنٹ ایسٹ کلکٹریٹ، اپریزمنٹ ویسٹ کلکٹریٹ اور اپریزمنٹ ایس اے پی کلکٹریٹ سے ان وارداتوں کے ذریعے ایک اندازے کے مطابق حالیہ عرصہ میں کم از کم 500 سے زائد سامان کے کنٹینرز اوپن اکاؤنٹ کی سہولت کا غیر قانونی استعمال کرکے کلیئر کروائے گئے۔ جن میں زیادہ تعداد نجی اسٹیل ملز مالکان کی ہے، جنہوں نے ایک ارب روپے سے زائد مالیت کے لوہے اور اسٹیل کے خام مال کے 158 کنٹینرز کلیئر کرائے۔ اور اتنی ہی مالیت کا زر مبادلہ اوپن مارکیٹ سے غیر قانونی طور پر حاصل کرکے ادائیگیاں کی گئیں۔ اُس وقت ملک میں حکومت ایک ایک ڈالر بچانے کے لیے اقدامات کر رہی تھی۔
اسی دوران ملک میں زر مبادلہ کی کمی کے باعث حکومت اور اسٹیٹ بینک نے نجی بینکوں کو امپورٹ کے سامان کی ادائیگیوں کے لئے الیکٹرانک امپورٹ فارم کے اجراء سے روک رکھا تھا جس کے نتیجے میں ایک وقت 15000سے زائد ہر قسم کے سامان کے کنٹینرز کلیئرنس کے لئے بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے تھے۔ یہ صورتحال کئی ماہ تک جاری رہی۔
ذرائع کے بقول اس دوران بعض شاطر اور موقع پرست کلیئرنگ ایجنٹ جنہوں نے کسٹمز اپریزمنٹ اور نجی بینکوں کے افسران سے اچھی سیٹنگ بنا رکھی تھی، نے پاکستان سنگل ونڈو یعنی پی ایس ڈبلیو میں موجود ایک بڑی خامی کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور برانچوں سے بیرون ملک ادائیگیوں کے لئے اوپن اکاؤنٹ کے سرٹیفکیٹ حاصل کر کے سامان کلیئر کروانا شروع کردیا۔
بعدازاں تحقیقات میں معلوم ہوا کہ پاکستان سنگل ونڈو میں ایسا کوئی آپشن ہی موجود نہیں تھا کہ کسٹمز افسران بینکوں کی برانچوں سے جاری ہونے والے اس اوپن اکاؤنٹ سرٹیفکیٹ کی تصدیق ان بینکوں کے ہیڈ کوارٹرز سے کر سکتے۔ جب سامان کلیئر ہونے کے بعد یہ تصدیق کا عمل شروع ہوا تو ایسے تمام اوپن اکاؤنٹ سرٹیفکیٹ سے بینکوں کی اعلیٰ انتظامیہ نے لاتعلقی کا اظہار کرکے بری الزمہ ہوگئے۔ جبکہ ان کے ملوث برانچ منیجرز کے خلاف بھی اب تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ اس تمام صورتحال میں اسٹیٹ بینک حکام کی خاموشی انتہائی افسوسناک اور معنی خیز رہی جو کہ ملک میں بینکنگ قوانین پر عمل در آمد کرنے کی ذمے دار اتھارٹی ہے اور ان کی خلاف ورزی پر متعلقہ بینکوں کے مالکان کے خلاف بھاری جرمانوں اور لائسنس منسوخی جیسی کارروائیاں کرنا اس کے دائرہ کار میں شامل ہے۔
ذرائع کے بقول ان عناصر کے خلاف اب تک کی بڑی کارروائی کرتے ہوئے ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ پورٹ قاسم نے ایک ارب سے زائد مالیت کے اسٹیل اسکریپ کے کنسائمنٹس کی غیرقانونی کلیئرنس کو بے نقاب کرتے ہوئے درآمدکنندگان میں شامل میسرز تابش اسٹیل فرنس، میسرز سنکو اسٹیل ریرولنگ ملز، میسرز احمد نور اسٹیل فرنس، میسرز کے بی انٹرپرائزز، میسرز وقاص اسٹیل فرنس اورکلیئرنگ ایجنٹس میسرز السادات انٹرپرائزز، میسرز گلوبل انٹرنیشنل، میسرز رفیع کے خلاف پانچ مختلف مقدمات درج کرلئے ہیں۔ جبکہ ان ملوں کے مالکان اور ان کے ایجنٹوں پر لاکھوں روپے کے جرمانے عائد کرنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے۔
ذرائع کے بقول وی بوک اور پی ایس ڈبلیو کی ٹیموں نے کھولے جانے والے اکاؤنٹ کے تحت کلیئرنس کا ڈیٹا حاصل کیا جس کی مکمل جانچ پڑتال پر یہ بات سامنے آئی کہ کچھ درآمد کنندگان اور کسٹمز ایجنٹس نے وی بوک سسٹم میں گڈز ڈیکلریشن فائل کرنے کے معیاری طریقہ کار کو نظرانداز کیا ہے اور مذکورہ درآمدکنندگان نے مختلف اوقات میں ایک ارب 66 کروڑ مالیت کے آئرن اینڈ اسٹیل ریلمٹ ابیل اسکریپ کے 160 کنسائمنٹس کی کلیئرنس کی۔
درآمد کنندگان کو گڈز ڈیکلریشن فائل کرتے وقت لین دین کے اوپن اکاؤنٹ موڈ کے تحت درآمد کرنے کا اختیار نہیں تھا، لیکن درآمدکنندگان کے ساتھ مل کر کلیئرنگ ایجنٹس نے غیر مجاز طور پر اوپن اکاؤنٹ کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے وی بوک اور پی ایس ڈبلیو سسٹم میں دھوکہ دہی کی۔ اس طرح، درآمد کنندگان نے اپنے کلیئرنگ ایجنٹس کے ساتھ مل کر اسٹیٹ بینک کے قوانین/ضابطوں کی خلاف ورزی کی اور لازمی الیکٹرونک امپورٹ فارم کے بغیر گڈز ڈیکلریشن کو فائل کرکے 160 کنسائمنٹس کی کلیئرنس کرنے میں کامیاب ہوئے۔
ذرائع کے بقول جب یہ معاملہ سامنے آیا تو پورٹ قاسم کے علاوہ دیگر اپریزمنٹ کلکٹریٹ جن میں ایسٹ، ویسٹ اور ایس اے پی ٹی شامل ہیں، ان سے اوپن اکاؤنٹ پر کلیئر ہونے والے سامان کا بھی آڈٹ کیا گیا جس میں انکشاف ہوا کہ ایسے کم سے کم 500 کنٹینرز کلیئر ہوئے۔
ذرائع کے بقول اس معاملے میں کسٹمز حکام کو ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز سے بھی انتہائی خاموشی اور رازداری سے کام کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں، کیونکہ پاکستان سنگل ونڈو میں اس سقم کو تو دور کرلیا گیا ہے اور اب اوپن اکاؤنٹ کی تصدیق بینکوں کے ہیڈ کوارٹرز سے کی جاسکتی ہے۔ تاہم جو وارداتیں ہوگئی ہیں اس کی ذمے داری بھی کسٹمز کے آن لان نظام وی بوک اور پی ایس ڈبلیو کے حکام پر ہے۔