محمد قاسم :
صوبہ خیبرپختون میں آئندہ انتخابات میں نادہندگان کو روکنے کیلئے ان کی فہرستیں تیار کرنا شروع کردی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق واپڈا، پی ٹی سی ایل، ایکسائز، انکم ٹیکس، محکمہ مال، ڈبلیو ایس ایس پی اور ایف بی آر کی جانب سے واجبات کی وصولی کیلیے ڈیفالٹرز کی کمپویٹرائزڈ فہرستیں مرتب کی جا رہی ہیں۔ جنہیں پشاور سمیت صوبہ بھر کے تمام DRO، RO اور ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنرز کے حوالے کیا جائے گا۔ جبکہ پولیس نے پرانے مقدمات کی فائلیں بھی ٹٹولنا شروع کردی ہیں۔ ان مقدمات میں ملوث افراد کی فہرستیں بھی الیکشن کمشنرز کو فراہم کی جائیں گی۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ محکموں کو اپنے بقایاجات کی وصولی کیلئے یہ ایک اچھا موقع مل گیا ہے اور اربوں روپے کے بقایاجات ملنے کی توقع کی جارہی ہے۔ دوسری جانب پولیس کی جانب سے سانحہ نو مئی سمیت دیگر مقدمات کی فائلیں تیار کی جارہی ہیں۔ پولیس کو مطلوبہ افراد پر کڑی نظر رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ مطلوب افراد اگر امیدوار ہو تو اس کو کاغذات جمع کرانے کی مہلت نہ دی جائے۔ اور اگر مطلوب افراد امیدوار کے ساتھ رہتا ہو تو اسے گرفتار کرلیا جائے اور مزاحمت پر اس کے ساتھ آنے والوں کو بھی گرفتار کیا جائے۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کو اس وقت سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ کیونکہ ان کے اہم متوقع امیدواران پولیس کو مطلوب ہیں اور پولیس انتخابی شیڈول کا انتظار کر رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی خیبرپختون چیپٹر کے اہم رہنمائوں کو خدشہ ہے کہ انہیں انتخابی شیڈول کے بعد گرفتار کرلیا جائے گا۔
ادھر ذرائع کے بقول کئی سابق وزرا اور اراکین آزاد حیثیت میں میدان میں اترنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ جیتنے کی صورت میں انہیں پرویز خٹک گروپ میں شامل کرنے کا امکان ہے۔ دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ نے تمام ڈسٹرکٹ الیکشن آفیسرز کو ہدایت کی ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر متعلقہ ضلع کی سیاسی صورتحال سے متعلق رپورٹ لیں اور الیکشن کمیشن کو ارسال کریں۔ تاکہ شفاف انتخابات کو یقینی بنایا جائے۔ یہ ہدایات جسٹس اعجاز اور جسٹس عتیق شاہ نے گزشتہ روز پی ٹی آئی کے صوبائی صدر علی امین گنڈا پور کی درخواست پر تحریری فیصلے میں جاری کیے۔
فیصلے کے مطابق انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ نگران حکومت انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہ کرے۔ ادھر تمام اضلاع کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسران نے اساتذہ کی ڈیوٹی لگانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ اساتذہ سے ان کے بینک اکائونٹس اور دیگر کوائف طلب کرلئے گئے ہیں۔ ان کیلیے ورکشاپس کے انعقاد کی تیاری کی گئی تھی۔ لیکن لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد تربیتیورکشاپس کا انعقاد خطرے میں پڑگیا ہے۔ کیونکہ پہلے ان کی نگرانی ڈپٹی کمشنرز کے حوالے تھی۔ اب شاید عدالتی افسران اور ججز کے حوالے کی جائے۔ جس سے نہ صرف عدالتی کارروائی میں خلل پڑے گا۔ بلکہ مقدمات پر بھی اثر پڑنے کا امکان ہے۔
جبکہ سرکاری افسران لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد ڈی ایم جی گروپ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے کہ اب سارا ملبہ عدالتوں پر پڑے گا اور وہ آنے والے وقتوں میں حکومتوں کے زیر عتاب آنے سے بچ جائیں گے۔ کیونکہ انتخابات کی نگرانی کرنے والے افسران اکثر بعد میں حکومت کے زیر عتاب آجاتے ہیں اور پانچ برسوں تک اکثر او ایس ڈی بن کر گزارتے ہیں اور کئی افسران کو انکوائریز اور دوردراز علاقوں میں تعیناتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔