علی جبران :
ماضی کے انتخابات کی طرح اس بار بھی سندھ سے نون لیگ کی عدم دلچسپی برقرار ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ میں ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے تین روز قبل لاہور میں ہونے والے اجلاس میں امیدواروں کی تعداد محض ایک سو تیس کے قریب تھی۔
واضح رہے کہ منگل کے روز ماڈل ٹاؤن لاہور میں واقع نون لیگ کے مرکزی دفتر میں نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں شہباز شریف، اسحاق ڈار اور رانا ثنا اللہ کے علاوہ نون لیگ سندھ کے صدر بشیر میمن بھی موجود تھے۔ پارٹی ٹکٹوں کے لئے کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہروں سے امیدواروں کو انٹرویو کے لئے طلب کیا گیا تھا۔
اس اجلاس کی تفصیلات سے آگاہ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں قومی و صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے خواہشمند امیدواروں کی تعداد مایوس کن تھی۔ محض ایک سو تیس کے قریب امیدوار تھے۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد اکسٹھ ہے۔ ان میں سے بائیس کراچی میں ہیں جبکہ سندھ میں صوبائی اسمبلی کی کل سیٹیں ایک سو تیس ہیں۔ ان میں سے سینتالیس کراچی میں ہیں۔ یوں صوبے میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی مجموعی تعداد ایک سو اکیانوے ہے۔ جبکہ آٹھ فروری کے الیکشن کے لئے نون لیگ کے صرف ایک سو تیس کے قریب امیدواروں نے ٹکٹوں کے لئے اپلائی کیا۔
اس کے برعکس گزشتہ عام انتخابات میں سندھ سے الیکشن لڑنے کے لئے پارٹی امیدواروں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ دو ہزار اٹھارہ میں الیکشن کی نگرانی پر مامور ایک پارٹی عہدیدار کے مطابق تب کراچی کے تقریباً تمام حلقوں سے امیدوار کھڑے کئے گئے تھے۔ ایک ایک سیٹ پر دو دو تین تین امیدوار تھے اور ان میں سے انتخاب کرنا مشکل ہورہا تھا۔
آٹھ فروری کے انتخابات کے لئے سندھ سے پارٹی امیدواروں کی تعداد میں کمی کے اسباب بیان کرتے ہوئے ذرائع کا کہنا تھا کہ ایک تو سندھ سے نون لیگ کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پارٹی کا صوبے میں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ہمیشہ کی طرح پارٹی کا سارا فوکس پنجاب اور مرکز پر ہے۔ انتخابی مہم کے لئے اشتہارات کے بجٹ کا بڑا حصہ بھی پنجاب اور مرکز کے لئے رکھا گیا ہے۔
دوسری جانب ٹکٹوں کے لئے پارٹی کی فیس میں بھی کئی گنا اضافہ کیا گیا۔ مثلاً گزشتہ الیکشن میں قومی اسمبلی کے ٹکٹ کی پارٹی فیس پچاس ہزار روپے جبکہ صوبائی اسمبلی کی فیس تیس ہزار روپے تھی۔ اس بار قومی اسمبلی کے ٹکٹ کی پارٹی فیس دو لاکھ روپے اور صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کی فیس ایک لاکھ روپے رکھی گئی۔ بہت سے مڈل کلاس امیدواروں نے اس وجہ سے بھی پارٹی ٹکٹ کے لئے اپلائی نہیں کیا کہ ایک تو پارٹی فیس میں بے پناہ اضافہ کیا گیا، دوسرا یہ کہ پارٹی کے امیدواروں کو اپنی ساری انتخابی مہم اپنی جیب سے چلانا ہے۔
پارٹی فیس میں کئی گنا اضافے کے حوالے سے مرکزی قیادت کی منطق یہ تھی کہ اس سے امیدوار کی سنجیدگی کا اندازہ ہوگا۔ اس کا اثر یہ نکلا کہ صوبے سے پارٹی ٹکٹ کے امیدوار سوا سو سے زائد امیدواروں نے انٹرویو کے لئے حاضری دی، ان میں سے بیشتر نے پارٹی فیس جمع نہیں کرائی تھی۔ لیکن پھر بھی ان کو سنا گیا۔ کیونکہ سندھ میں پارٹی کو امیدوار نہیں مل رہے لہٰذا یہ اس کی مجبوری تھی۔
سندھ میں پارٹی امیدواروں کے بارے میں پارٹی ذرائع کا کہنا تھا، کیونکہ جمعہ کا روز کاغذات نامزدگی کے حصول کا آخری دن ہے۔ اگر اس مدت میں اضافہ نہیں کیا جاتا تو تمام پارٹی امیدواروں کی تفصیلات آج سامنے آجائیں گی۔ واضح رہے کہ شہباز شریف تو کراچی کے حلقہ دوسو بیالیس سے الیکشن لڑنے کے لئے کاغذات نامزدگی حاصل کرچکے ہیں۔ پارٹی ذرائع کے مطابق مریم نوازکو بھی کراچی سے الیکشن لڑانے کا آپشن تاحال برقرار ہے۔ اگلے ایک دو روز میں اس حوالے سے بھی حتمی تفصیلات سامنے آجائیں گی۔
مریم نواز کو کراچی کے حلقہ این اے دوسو سینتیس سے الیکشن لڑانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اختر کالونی، پی ای سی ایچ ایس، بلوچ کالونی، محمود آباد، سندھ مسلم ہائوسنگ سوسائٹی، نرسری اور دیگر علاقوں پر مشتمل اس حلقے سے دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار مرحوم عامر لیاقت کامیاب ہوئے تھے۔ تب قومی اسمبلی کی نشست کا نمبر دوسوپینتالیس تھا۔ عامر لیاقت کے بعد دوسرے نمبر پر ایم کیو ایم کے فاروق ستار جبکہ پانچویں اور چھٹے نمبر پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے۔ عامر لیاقت کے انتقال کے بعد ضمنی الیکشن میں بھی پی ٹی آئی کے امیدوار محمود مولوی نے قومی اسمبلی کی اس نشست پر فتح حاصل کی تھی۔