ندیم بلوچ :
حماس کا تیار کردہ دیسی اسلحہ اسرائیل کے اربوں ڈالر مالیت کے فوجی سازوسامان پر بھاری پڑنے لگا۔ محض 300 ڈالر کے آر پی جی راکٹ سے ساڑھے 3 کروڑ ڈالر مالیت کے مارکانہ ٹینکوں کے پرخچے اُڑائے جا رہے ہیں۔
اینٹی پرسنل ڈیوائس، مارٹر گولے اور بارودی سرنگوں یعنی لینڈ مائنز سے صہیونی فوجی دستوں کو مردود کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح اسرائیلی شہروں میں داغے جانے والے بیلیسٹک میزائل اور سوسائیڈ ڈرونز سمیت اسنائپرز گنز القسام بریگیڈ کے انجینئرز خود سرنگوں میں تیار کر رہے ہیں۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی افواج انتہائی جدید اور اعلیٰ تربیت یافتہ ہونے کے ساتھ دنیا کے نمبر ون میزائل ٹیکنالوجی اور ایمونیشین سے لیس ہے۔ تاہم حماس، حزب اللہ اور حوثی فائٹرز کی دیسی ساختہ ٹیکنالوجی نے امریکہ، اسرائیل اور دیگر مغربی ممالک کو سرپرائز کردیا ہے۔ گوکہ حماس حوثیوں اور حزب اللہ کے مقابلے میں اسلحے کی دوڑ میں خاصی کمزور ہے، لیکن پھر بھی دو ماہ سے غزہ میں صہیونی افواج کو گھیر رکھا ہے۔
عزالدین القسام بریگیڈ، القدس بٹالین اور مجاہدین نے غزہ میں موجود دو لاکھ کے قریب اسرائیلی فوجیوں کو تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ جہاں ان کے ایلیٹ کمانڈوز سمیت پیشہ ور فوجیوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس اربن گراؤنڈ بیٹل میں حماس کو اسرائیل پر واضح برتری حاصل ہے۔
القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے اپنے حالیہ آڈیو بیان میں الجزیرہ کو بتایا کہ غزہ میں اسرائیل کے علاوہ دیگر ممالک سے آئے پرائیوٹ فورسز سے بھی ہمارے مجاہدین ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ 72 گھنٹوں کے دوران مجاہدین کی تازہ کارروائی میں غزہ کے مختلف علاقوں میں الیاسین 105 آر پی جیز، کورنیٹ اور مارٹر گولوں کے ذریعے ایک درجن سے زائد مارکانہ ٹینکس، بلڈوزروں اور ہیمر جیپس تباہ کر دیئے ہیں۔
مجاہدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مغربی میڈیا اسرائیل کو پہنچنے والے نقصان کو ایک فیصد بھی رپورٹ نہیں کر رہا۔ واضح رہے کہ مجاہدین کی جانب سے غزہ میں دس ہزار کے قریب صہیونی فوجیوں کو ہلاک اور زخمی کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ حماس کی حالیہ کامیابیوں کا راز سرنگوں میں چھپا وہ کارخانہ ہے جہاں اب بھی اسحلہ، گولیاں، گولہ بارود تیار کیا جارہا ہے۔
میدان جنگ میں حماس کی ہتھیار بنانے کی صلاحیت کے عالمی سطح پر چرچے ہیں۔ خاص طور پر دیسی ساختہ راکٹوں، ٹینک شکن گائیڈڈ میزائل اور کندھے سے لانچ کیے جانے والے طیارہ شکن میزائل، الزوری ڈرونز، اینٹی پرسنل ڈیوائس، اسنائپرز، اسالٹ رائفلز، بوبی ٹریپس ڈیوائس، لانگ اور شارٹ رینچ بیلیسٹک میزائل شامل ہیں۔ حماس یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ ان کے پاس ایسے بھی میزائل ہیں جو اسرائیل کے آئرن ڈوم سسٹم کو چکمہ دے کر اپنے ہدف کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جنوب مشرق ایشیائی مانیٹرنگ سروس آرمز شو ٹریکر کے بانی میگوئل مرانڈا کا کہنا ہے کہ دیسی ساختہ آر پی جی سے مارکانہ ٹینکس کو جس طرح تباہ کیا جارہا ہے وہ ناقابل یقین ہے۔ کیونکہ مارکانہ ٹینک دنیا کا پانچواں مہنگا ترین اینٹی میزائل ٹینک ہے۔ لیکن حماس کے فائٹرز صفر مسافت کی حکمت علمی کے تحت اس مضبوط ترین آئرن ٹینک کو بآسانی تباہ کر رہے ہیں۔ جبکہ کورنٹ میزائل سے بھی اس ٹینک کو تباہ کیا جارہا ہے۔
یہ جنگی سازوسامان روسی ڈیزائن پر مبنی ہے اور ان کا مقصد آرمر ٹینک کو شکست دینا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ہتھیاروں کا زیادہ تر حصہ مختصر فاصلے تک مار کرنے والے راکٹوں پر مشتمل ہے، جسے حماس کے مسلح ونگ القسام کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ تقریباً 6.2 میل کی رینج پر وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ہتھیاروں کے حوالے سے میگوئل مرانڈا کا کہنا ہے کہ آئندہ آنے والے دونوں میں اسرائیل میں حماس کی جانب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ حملے مزید بڑھ سکتے ہیں۔ ممکنہ طور پر اس کا ٹارگٹ تل ابیب اور دیگر تجارتی شہر ہوں گے۔ M-75، لانچ راکٹ سسٹم 130 پاؤنڈ وزنی وار ہیڈ لے جا سکتا ہے۔ جو حماس کے پاس پچاس ہزار سے زائد ہیں۔ حماس نے متعدد مارٹر اور روسی ساختہ، لیزر گائیڈڈ اینٹی ٹینک میزائل بھی جمع کیے ہیں، جنہیں کورنیٹ کہا جاتا ہے۔ یہ مغرب میں AT-14 Spriggan کے نام سے جانا جاتا ہے۔
میگوئل کا مزید کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز کے لیے تشویش کی اصل وجہ حماس کی طرف سے ٹینک شکن میزائلوں کی موجودگی ہے، جس کے باعث وہ اب تک غزہ میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ حماس نے جنگ میں ایک ’’شہاب‘‘ خودکش ڈرون بھی متعارف کرایا ہے، جو بنیادی طور پر ایرانی ساختہ ابابیل-2 کی نقل ہے۔ حماس کے فریڈم فائٹرز کے پاس جدید بندوقوں کا ایک بڑا ذخیرہ بھی موجود ہے۔ جس میں سوویت طرز کی AK-47، راکٹ سے چلنے والے دستی بم، طویل فاصلے تک مار کرنے والی سنائپر رائفلیں اور بھاری مشین گنیں شامل ہیں۔
کچھ رپورٹس یہ بھی بتاتی ہیں کہ جانبازوں کے پاس چینی مشین گنوں کی نقلیں ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ کتنے مجاہدین اس وقت اسرائیل سے گھمسان کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ تاہم دفاعی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے بعد سے مجاہدین کی تعداد کم ہونے کے بجائے زیادہ ہوگئی ہے۔