محمد قاسم :
ایران کی جانب سے افغانستان کو فلسطین کانفرنس میں دعوت دینے پر کئی ممالک حیرانگی میں مبتلا ہوگئے۔ اس دعوت کو افغانستان کی عبوری حکومت کو تسلیم کئے جانے کی علامات کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی معلومات کے مطابق ایران نے گزشتہ روز افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کو ہفتے کو تہران میں فلسطین کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس میں باضابطہ دعوت دے کر کئی ممالک کو حیران کر دیا ہے۔
کابل میں وزیر خارجہ کے ترجمان ضیاء الرحمان کے مطابق ایران نے پہلی بار باضابطہ طور پر ایران کے وزیر خارجہ کو افغانستان کی نمائندگی کرنے کے لیے سفارتی طور پر دعوت دی ہے۔ یہ دعوت ایران کے وزیر خارجہ امیر عبداللہ نے دی ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ ایران دیگر ممالک کے برعکس طالبان کی اہمیت کو تسلیم کر رہا ہے۔
کانفرنس میں غزہ کے حوالے سے غور کیا جارہا ہے۔ تاہم ایران کی جانب سے افغان طالبان کو افغان حکومت کے نمائندے کے طور پر دعوت دینے سے ایران اسلامی دنیا پر یہ ظاہر کررہا ہے کہ ایران آئندہ سال یعنی 2024ء میں کسی بھی وقت طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا ہے۔
ذرائع کے مطابق امیر خان متقی نے ایران پہنچتے ہی ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات کی ہے اور ان کی جانب سے باضابطہ دعوت پر ایران کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ادھر اس ملاقات کے فوری بعد ایران نے مزید 400 افغان شہریوں کو جیلوں سے رہا کر دیا۔ ایران کے اس اقدام کو افغان حکومت نے سراہا ہے۔ ایران کی جیلوں میں اس وقت مختلف جرائم کی پاداش میں ہزاروں افغان مہاجرین قید ہیں اور طالبان حکومت اب تک 4 ہزار قیدیوں کو افغانستان واپس لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔
گزشتہ ماہ مولانا عبدالغنی برادر نے ایران سے ان قید افغانوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے بعد ایران نے طالبان حکومت کے کہنے پر قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ دوسری جانب افغان حکومت کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی کو بعض ماہرین ایران کی جانب سے علاقے میں اپنے لیے ایک اور اہم ساتھی تلاش کرنے میں کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
حال ہی میں یمن میں حوثی افواج کی جانب سے بین الاقوامی میری ٹائمز ٹرانسپورٹ کو کاٹنے میں کارنامہ انجام دیا گیا ہے، جسے ایران کی سپورٹ حاصل ہے۔ادھر حماس اور اسلامک جہاد کی مزاحمت نے بھی امریکہ سمیت پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ ایران سمیت دیگر ممالک کو حماس اور اسلامک جہاد کی جانب سے اتنی طویل مزاحمت کی توقع نہیں تھی، لیکن اب ایران نے علاقے میں اپنی بالادستی کو پھیلانے کے لیے مسلح تنظیموں سے تعلق بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق تہران آنے والے اپوزیشن کے چار رہنماؤں کو دوٹوک انداز میں جواب دیا ہے کہ وہ ایرانی نمائندگی کرنے سے باز رہیں اور افغان طالبان کے خلاف یورپ کے ساتھ مل کر سازش کرنے سے اگر باز نہ آئے تو ایران میں ان کے کاروبار کو بند کر دیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق انہیں پیغام ملا ہے کہ وہ افغان طالبان کے خلاف یورپی ممالک میں پروپیگنڈہ بند کر دیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ایران اقدامات اٹھانے پر مجبور ہو جائے گا۔
کابل میں موجود ذرائع کے مطابق شام، یمن، فلسطین، عراق کے بعد ایران نے افغانستان کے ساتھ بھی تعلقات میں وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے اور افغان طالبان کو تیل، گیس اور دیگر مد میں تعاون فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایران کی جانب سے کابل کو مزید بجلی کی فراہمی پر کام جاری ہے اور گزشتہ روز 500 ٹرانسمیشن لائنز پر کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ جس سے کابل کو بجلی فراہم کی جائے گی اور کابل کے رہائشیوں کو بجلی کا مسئلہ حل کرنے کی امید ہے۔
ایران کی جانب افغان حکومت کو طویل مدت کے لیے تیل اور گیس کی سپلائی بھی جاری ہے۔ جبکہ چاہ بہار بندرگاہ پر افغان حکومت کے سرکاری سامان پر ٹیکس معاف کر دیا گیا ہے۔ جبکہ افغان تاجروں کے مال پر ٹیکس افغان طالبان حکومت کو دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔