نواز طاہر :
مسلم لیگ (ن) انتخابی اتحاد اور ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے تذبذب کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔ یہ معاملہ انتخابی نتائج پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے اور اسی دوران ممکنہ نئے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ اتحاد کے بارے میں بھی چہ مگوئیاں جاری ہیں۔
لاہور میں اتحادی ٹکٹوں کے حوالے سے سب سے طویل نشستیں مسلم لیگ (ن) کی ہوئیں جن میں کئی ایک امور پر اختلاف رائے کھل کر سامنے آنے کی اطلاعات اور خبریں بھی سامنے آئیں۔ تاہم مسلم لیگ (ن) کی طرف سے مخصوص نشستوں پر جاری ہونے والی ٹکٹوں (ترجیحی لسٹ) نے مسلم لیگ (ن) کے اس مؤقف کی تائید کردی ہے کہ یہ اطلاعات خاص مقاصد کے لیے مخصوص عناصر کی طرف سے پھیلائی گئی تھیں اور کہا گیا تھا مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز اور سابق وفاقی وزیر تہمینہ دولتانہ کے درمیان گرمی سردی ہوئی ہے۔ جبکہ تہمینہ دولتانہ کا نام مسلم لیگ (ن) کی طرف سے الیکشن کمیشن کو دی جانے والی خواتین کی مخصوص نشستوں پر ترجیحی لسٹ میں دوسرے نمبر پر شامل ہے جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ انہیں اس تکرار کے باعث مسلم لیگ ن کا ٹکٹ نہیں دیا جارہا۔
اس کے برعکس مسلم لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ دولتانہ خاندان کا وہاڑی میں سیاسی اثرورسوخ ماضی کی طرح نہیں رہا اور وہاں جنرل نشستوں کے ٹکٹ کے لیے دولتانہ خاندان کا اصرار درست نہیں۔ اس کے بعد یہ طے پایا تھا کہ تمام ٹکٹوں کا فیصلہ نواز شریف کریں گے جو سب کو قبول کرنا ہو گا۔
ان ذرائع کے مطابق ٹکٹوں کے حصول کے لیے کوشش کرنے والے امیدواروں کے بارے میں باہمی اختلاف رائے بھی نواز شریف کے فیصلے کی روشنی میں خودبخود ختم ہو جائے گا۔ تاہم یہ امر خارج ازامکان نہیں کہ علاقائی سیاست زندہ رکھنے کے لیے کچھ امیدوار پارٹی فیصلہ کے برعکس آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں جن کا پارٹی کو نقصان ہو سکتا ہے اور پارٹی قیادت اس کا حل بھی تلاش کر رہی ہے۔ ٹکٹوں کے حوالے سے اختلاف رائے کا شکار مسلم لیگ ن نے پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کر کے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے والے بعض سابق اراکین پنجاب اسمبلی کو ٹکٹ جاری نہیں کیا۔ ان میں سابق صوبائی وزیر انسانی حقوق اعجاز عالم آگسٹن بھی شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق میں اس وقت تک صرف طارق بشیر چیمہ کے ٹکٹ کے ماسوا مسلم لیگ ق سے تمام امور طے پا چکے ہیں۔ جبکہ طارق بشیر چیمہ کو ٹکٹ جاری کرنے پر اختلاف رائے بھی مسلم لیگ ن کے اندر کا ہے اور مسلم لیگ ق کو وہی نشستیں دی جائیں گی جو گزشتہ الیکشن میں اس نے جیتی تھیں۔
اسی طرح استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ بھی مسلم لیگ ن صرف پانچ نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے پر رضامند ہے اور باقی نشستوں پر استحکام پاکستان کے امیدوار اپنے پارٹی ٹکٹ پر اوپن الیکشن لڑیں گے اور ممکنہ طور پر بعض حلقوں میں سخت مقابلہ بھی ہو گا۔ ایک سروے کے مطابق آئی پی پی کے کچھ امیدوار مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو ہرا بھی سکتے ہیں۔
اسی دوران انتخابی حالات کے حوالے سے پنجاب میں پی ٹی آئی کی صورت حال انتہائی خراب دکھائی دے رہی ہے اور انٹرا پارٹی الیکشن پر سپریم کورٹ کی طرف سے ریلیف نہ ملنے کی صورت میں یہ صورت حال اور خراب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ دوسری جانب ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ شاید سپریم کورٹ سے پی ٹی آئی کو کچھ عبوری ریلیف مل جائے اور بلے کا انتخابی نشان بھی اسے ہی دیا جائے لیکن اسی دوران بلے کا نشان لینے کے لیے الیکشن کمیشن کو ایک اور جماعت کی طرف سے بھی درخواست دے دی گئی ہے اور اس درخواست کی منظوری کے ضمن میں پی ٹی آئی کو ملنے والا عقاب کا انتخابی نشان ہے جو قبل ازیں آل پاکستان مسلم لیگ کے پاس تھا۔
لاہور کے انتخابی دنگل میں میاں نواز شریف اور عمران خان کے ساتھ ساتھ اب پہلی بار پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے کاغذات نامزدگی بھی داخل کروائے گئے ہیں۔ تاہم بلاول بھٹو زرداری کے لاہور سے الیکشن لڑنے کے امکانات بہت کم ہیں اور زیادہ امکان یہ ہے کہ ان کے کورنگ امیدوار اسلم گل ہی اس حلقے سے الیکشن لڑیں گے۔
پیپلزپارٹی کے ذرائع کے مطابق پارٹی چیئرمین کا لاہور سے پہلا الیکشن رسک سے بالا ہونا چاہیے اور بظاہر ایسی صورت حال دکھائی نہیں دیتی کہ بلاول بھٹو کی اس حلقے سے فتح یقینی ہو۔ ان ذرائع کے مطابق غالب امکان ہے کہ بلاول بھٹو لاہور سے الیکشن نہیں لڑیں گے۔