طالبان امیر مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ پاکستان میں نئی حکومت بننے سے پہلے کشیدگی کا خاتمہ چاہتے ہیں، فائل فوٹو
 طالبان امیر مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ پاکستان میں نئی حکومت بننے سے پہلے کشیدگی کا خاتمہ چاہتے ہیں، فائل فوٹو

گورنر قندھار کو پاکستان بھیجنے کا فیصلہ

محمد قاسم :
افغان طالبان کے امیر مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے پاکستانی مطالبات پر غور کرنے اور تعلقات میں بہتری کیلئے اپنے دست راست اور گورنر قندھار مولوی شیرین اخونزادہ کو پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ متوقع دورے میں مولوی شیرین کا حکومتی عہدیداروں کے علاوہ سیکورٹی حکام کے ساتھ بھی ملاقاتوں کا امکان ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان نے دونوں ممالک میں کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان کو کابل دورے کی دعوت دی تھی اور جے یو آئی کی شوریٰ کے اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے 8 فروری کے انتخابات کے بعد دورہ افغانستان کے دورہ پر جانے کا اعلان کیا۔ تاہم طالبان حکومت کشیدگی کو نئی حکومت آنے سے پہلے ختم کرنا چاہتی ہے۔

ذرائع کے مطابق اس مقصد کیلئے طالبان کے امیر مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے طالبان مزاحمتی تحریک کے خفیہ امور کے انچارج اور گورنر قندھار مولوی شیریں اخونزادہ کو پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مولوی شیرین کے دورے کے دوران پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی کے حوالے سے اپنے مطالبات سامنے رکھے گا۔

ذرائع نے بتایا کہ مشرقی شوریٰ یا مشرقی افغانستان سے تعلق رکھنے والے افغان طالبان رہنمائوں کے ٹی ٹی پی کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اس لئے وہ ٹی ٹی پی کو پاکستان کیخلاف حملوں سے روکنے میں ناکام رہے۔ اب افغان طالبان کے سربراہ نے حقائق جاننے کیلئے مولوی شیرین کو پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستانی حلقے بھی قندھار یا ہلمند سے افغان طالبان رہنمائوں کے ساتھ بات چیت کے متمنی ہیں۔ کیونکہ قندھار شوریٰ یا ہلمند شوریٰ کے طالبان لیڈروں کے ٹی ٹی پی سے تعلقات نہیں۔ جبکہ قندھار شوریٰ کے پاکستان کے بعض حلقوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ جن میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ممتاز علمائے کرام بھی شامل ہیں۔

قندھار شوریٰ جسے ماضی میں افغان حکومت کوئٹہ شوریٰ کے نام سے پکارتی تھی، کا افغانستان میں بنیادی کردار ہے اور قندھار شوریٰ کی لیڈر شپ پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کے حق میں نہیں۔ دوسری جانب افغانستان پر طالبان قبضے کے بعد ایران نقل مکانی کرنے والے میڈیا کے کارکنوں نے دونوں ممالک سے درخواست کی ہے کہ انہیں واپس بھجوانے کے بجائے مہلت دی جائے۔

جرمنی میں افغان صحافیوں کی ایک تنظیم نے بتایا کہ ایران اور پاکستان میں تقریباً 4 ہزار میڈیا کارکنان کابل پر طالبان قبضے کے بعد ایران اور پاکستان چلے گئے تھے۔ پاکستان آنے والوں نے ویزے حاصل کیے۔ جن کی میعاد ختم ہورہی ہے اور انہیں یورپ اور امریکہ متنقلی سے قبل واپس افغانستان ڈی پورٹ کرنے کے خدشات کا سامنا ہے۔

تنظیم نے حکومت پاکستان سے درخواست کی ہے کہ ان میڈیا کارکنوں کو واپس بھجوانے کی مدت میں توسیع کی جائے۔ کیونکہ انہیں بیرون ملک منتقل کرنے پر کام جاری ہے۔ پاکستان نے اب تک ان میڈیا کارکنوں کو ملک سے بے دخل کرنے کا فیصلہ نہیں کیا اور یہ کہ ان کے لئے پالیسی اختیار کرنے پر سوچا جارہا ہے۔