علاقے میں منشیات فروشی اور کچی شراب کا دھندا چل رہا تھا، فائل فوٹو
 علاقے میں منشیات فروشی اور کچی شراب کا دھندا چل رہا تھا، فائل فوٹو

کراچی، جھگی مکینوں نے آتش زدگی دہشت گردی قرار دیدی

حسام فاروقی:

کراچی میں تین ہٹی پل کے نیچے آگ سے خاکستر ہونے والی ڈیڑھ سو جھگیوں کے مکینوں نے واقعے کو دہشت گردی قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں بھی اسی مقام پر نامعلوم افراد کی جانب سے تین سو جھگیاں جلائی گئی تھیں۔ تاہم حالیہ واقعے کے بعد تاحال کوئی ملزم گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ پولیس نے اس معاملے میں تاحال کسی بھی قسم کی کارروائی کا آغاز نہیں کیا ہے۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ جس مقام پر جھگیاں قائم ہیں، وہاں عرصہ دراز سے منشیات فروشی کا کام بھی ہوتا ہے اور دو مختلف گروپ مذکورہ جگہ پر منشیات فروخت کرتے ہیں۔ جبکہ اس جھگی بستی میں کچی شراب بھی تیار کی جانے کی اطلاعات تھیں۔ آتشزدگی کے باعث جھگیوںکے مکینوں کے پاس موجود ان کے شناختی دستاویزات بھی جل کر خاکستر ہو گئے ہیں۔ یہ شکایات سامنے آنے پر حساس اداروں نے بھی اس معاملے میں سنجیدگی دکھانا شروع کر دی ہے۔ جبکہ پولیس اس معاملے کو منشیات کے عادی افراد کی لاپرواہی کا شاخسانہ قرار دے رہی ہے۔

ادھر محکمہ فائر بریگیڈ کی جانب سے اس معاملے کی تفصیلی رپورٹ تاحال جاری نہیں کی جا سکی۔ چند روز قبل تین ہٹی پل کے نیچے عرصہ کئی سال سے قائم جھگی بستی میں ایک بار پھر سے آتشزدگی کا واقعہ ہوا تھا جس میں ڈیڑھ سو جھگیاں جل کر مکمل خاکستر ہو گئیں اور باقی جھگیوں کو فائر بریگیڈ کے 9 گاڑیوں نے بر وقت کارروائی کرتے ہوئے جلنے سے بچا لیا تھا۔

اس وقت جلنے والی جھگیوں کے متاثرین راتیں کھلے آسمان کے نیچے گزارنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ متاثرہ ڈیڑھ سو خاندانوں کو نگراں حکومت سندھ کی جانب سے بھی کوئی امداد فراہم نہیں کی گئی ہے۔ متاثرین میں بڑی تعداد ضعیف افراد سمیت حاملہ خواتین اور چھوٹے بچوں کی بھی ہے جو سرد راتیں کھلے آسمان تلے گزار رہے ہیں۔ تین ہٹی پل کے نیچے جھگیوں پر مشتمل بستی کئی سال سے قائم ہے جس میں مقیم زیادہ تر افراد کا تعلق ہندو برادری سے ہے۔ یہ لوگ اپنا گزر بسر بھیک مانگ کر یا چھوٹی موٹی مزدوری کرکے کرتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق بستی میں منشیات فروشی کا کاروبار بھی کافی عرصے سے جاری ہے اور پل کے عین نیچے شام کے اوقات میں منشیات کے عادی افراد کا جم غفیر لگا رہتا ہے۔ اس بستی میں سال 2021ء میں بھی آگ لگ چکی ہے جس میں 300 جھگیاں جل کر خاکستر ہوئی تھیں اور پولیس نے تین ملزمان کو بھی گرفتار کیا تھا جنہوں نے ابتدائی تفتیش میں امداد ملنے کی لالچ میں جگھیوں کو آگ لگانے کا اعتراف کیا تھا۔

جھگی بستی کے بعض مکینوں کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کی بستی میں آگ خود نہیں لگی بلکہ کسی نے لگائی ہے۔ اس کا مقصد کیا ہے؟ اس بارے میں پولیس ہی تفتیش کرنے کے بعد بہتر بتا سکتی ہے۔ مگر پولیس کی جانب سے بھی اس معاملے میں ابھی تک کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔

متاثرین کا کہنا تھا کہ لگنے والی آگ پر جب بھی ہم پانی ڈال کر اسے بھجانے کی کوشش کرتے تھے تو یہ مزید پھیلتی تھی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ آگ کسی مخصوص کیمیکل کی مدد سے لگائی گئی تھی۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد کئی افراد ایسے بھی سامنے آئے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کے شناختی دستاویزات بھی اس آگ میں جل گئے ہیں اور اب ان کے پاس پاکستانی ثابت کرنے کیلئے کوئی بھی دستاویزات نہیں ہیں۔ بہت سے افراد کے تو اب تک شناختی کارڈ بھی نہیں بنے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے شناختی کارڈ تاحال نہیں بنے تھے اور جو دستاویزات شناختی کارڈ بنانے میں استعمال ہوتے ہیں وہ بھی تمام کے تمام جل گئے ہیں۔ کچھ ایسے لوگوں نے بھی نادرا آفس میں رابطے کرنا شروع کیے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے۔ ان کے والدین کے جو دستاویزات ان کے پاس تھے وہ آگ کی نذر ہو گئے ہیں۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال دیکھتے ہوئے ملکی سلامتی پر مامور حساس اداروں نے بھی اب اس معاملے میں دلچسپی لینا شروع کر دی ہے اور اس بستی میں رہنے والے افراد کی خاموشی سے اسکریننگ کی جا رہی ہے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ بھی ہو سکتا ہے تاکہ بنا کسی دستاویزات کے حکومت سے ہمدردی حاصل کرتے ہوئے قومی شناختی کارڈ بنوا ئے جائیں اور اس طرح سے ملک دشمن عناصر بھی اس ملک کی شہریت حاصل کر سکتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ جن کے شناختی کارڈ پہلے بن چکے ہیں ان کی تصدیق تو بائیو میٹرک نظام سے ممکن ہو جائے گی۔ مگر جو لوگ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے شناختی کارڈ نہیں بنے تھے اور وہ بنوانا چاہتے ہیں، ان کی مکمل اسکریننگ کی جائے گی۔ ذرائع کے منطابق اس مذکورہ بستی میں دو مختلف گروپ، منشیات فروخت کرنے میں ملوث ہیں جو اسی بستی کے رہائشی بھی ہیں۔ جبکہ اس بستی میں کچی شراب کی تیاری کا کام بھی عرصہ کئی سال سے کیا جاتا رہا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی ایک منشیات فروش گروپ کی جانب سے بستی پر قبضہ کرنے کے لئے آگ لگائی گئی ہو۔ تاہم اصل حقائق تو مقدمہ درج ہونے کے بعد تفتیش کیے جانے پر ہی سامنے آسکیں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بستی کی جھگیوں میں کچی شراب کی چھوٹی چھوٹی بھٹیاں قائم تھیں، جہاں سے کچی شراب فروخت ہوتی تھی۔ جس رات آگ لگی، اس رات بھی بستی کے اندر کچی شراب کشید کی جا رہی تھی اور اس میں کیمیکل ملایا جا رہا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس دوران آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا ہو اور جو کیمکل شراب کی تیاری میں استعمال کیا جا رہا تھا، اس نے آگ پکڑ لی ہو۔ اگر تفتیشی ادارے اس معاملے میں خود بستی کے اندر جا کر تفتیش کریں تو بہت سی باتیں سامنے آسکتی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ شہر کے وسط میں موجود اس جھگی بستی میں کون کون سے غیر قانونی کام دھڑلے سے جاری تھے۔