فائل فوٹو
فائل فوٹو

کراچی میں جعلی ڈالرز فروخت کرنے والا گروہ سرگرم

عمران خان :
بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کے بجائے اوپن مارکیٹ کے ایجنٹوں سے امریکی ڈالرز خریدنے والے شہری ہوشیار ہوجائیں، کیونکہ کراچی میں ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتار جعلی ڈالرز فروخت کرنے والے ملزم سے تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ اس نے عام شہریوں کے ساتھ ساتھ جج، وکیلوں اور بینک افسران کو بھی چونا لگایا۔ جعلی ڈالرز خیبر پختونخواہ کے علاقے مٹہ سے تعلق رکھنے والے شخص سے حاصل کیے جا رہے تھے۔ جس پر تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی انکشاف ہوا کہ یہ جعلی ڈالرز اس قدر مہارت سے بنائے گئے کہ متعدد ماہر افراد بھی پہنچاننے میں ناکام رہے۔ ان کے سییورٹی فیچر کی سطحی پرنٹنگ کے ساتھ مائیکرو پرنٹنگ بھی اصل جیسی کی گئی تھی۔ صرف 200 پاور کی انفرا ریڈ شعاعوں کے آلے سے معلوم ہوا کہ اس کے چند مخصوص نینو (NANO) پرنٹنگ میں فرق تھا۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ جعلی ڈالرز 95 فیصد تک اصل جیسے ہی ہیں۔

’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ ہفتے، 27 دسمبر کو ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل کراچی کی ٹیم کی جانب سے شہر میں جعلی ڈالرز فروخت کرنے والے ایک ملزم کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کیا۔ جس سے جعلی ڈالرز بھی بر آمد کئے گئے۔ اس کارروائی میں درج مقدمہ کے مطابق احمد علی نامی ایک شہری کی جانب سے ماہ دسمبر کے آغاز میں ایف آئی اے کراچی زون کے ڈائریکٹر آفس کو ایک تحریری درخواست دی گئی۔ جس میں بتایا گیا کہ وہ ایک وکیل ہیں اور انہیں گزشتہ دنوں ایران اور عراق میں زیارت کیلئے جانے کیلئے زر مبادلہ کی ضرورت تھی۔

انہوں نے اپنے ایک جاننے والے کے کہنے پر عبداللہ نامی شخص سے رابطہ کیا۔ اس کے جاننے والے نے بتایا تھا کہ عبداللہ مختلف ایکسچینج کمپنیوں کیلئے کام کرتا رہا ہے اور ایکسچینج کی اوپن مارکیٹ میں اس کے اچھے رابطے ہیں۔ جو مناسب ریٹ پر ڈالرز کا انتظام کرکے دے سکتا ہے۔ جس پر مدعی نے عبداللہ سے اس کے نمبر پر رابطہ کیا اور اسے 1500 امریکی ڈالرز فراہم کرنے کیلئے کہا۔

اس کے جواب میں عبداللہ نے بتایا کہ اس وقت ایکسچینج کمپنیوں کے علاوہ اوپن مارکیٹ میں بھی ڈالرز کا بحران ہے اور ڈالرز بہت مشکل سے مل رہے ہیں۔ چونکہ احمد علی کو مناسب ریٹ پر ڈالرز چاہئیں تو اس لئے وہ کچھ ڈالرز ابھی دے گا اور کچھ دو ہفتے بعد دے گا۔ اس کے بعد مدعی نے عبداللہ کے کہنے پر 4 لاکھ روپے (پاکستانی) اپنے بینک اکائونٹ سے آن لائن ٹرانزیکشن کے ذریعے اس کے بتائے گئے بینک اکائونٹ میں ٹرانسفر کردیئے۔ بعد ازاں 12 دسمبر کو عبداللہ نے 500 امریکی ڈالرز اس کے گلستان جو ہر میں پرفیوم چوک کے قریب قائم دفتر میں لاکر دیئے اور باقی کے 1000 ڈالرز 27 دسمبر کو لاکر دینے کا وعدہ کرکے چلا گیا۔

عبداللہ کے جانے کے بعد مدعی نے اس بات کا ذکر اپنے کچھ دوستوں سے کیا کہ اس کو ڈالرز مارکیٹ ریٹ سے کم میں ملے ہیں اور کمیشن بھی نہیں دینا پڑا۔ اس پر اس کے دوست حیران ہوئے۔ کیونکہ اس وقت ملک میں موجود صورتحال کی وجہ سے یہ ممکن ہی نہیں کہ ڈالرز انٹر بینک ریٹ یا اوپن مارکیٹ ریٹ سے کم میں مل سکیں۔ بلکہ یہ ڈالرز 2 سے 5 روپے اضافی پر ہی مل سکتے ہیں۔ اس نے شبہ کے تحت یہ ڈالرز کچھ ایسے دوستوں کو دکھائے۔ جن میں ایکسچینج کمپنی میں کام کرنے والے افراد بھی شامل تھے۔ مذکورہ افراد نے انہیں مشکوک قرار دیا۔ جس پر مدعی کی جانب سے تحریری درخواست دی گئی۔

مذکورہ درخواست پر ڈپٹی ڈائریکٹر کمرشل بینکنگ سرکل کراچی علی مراد کی زیر نگرانی انکوائری نمبر 171/2023 رجسٹرڈ کرکے تحقیقات شروع کی گئیں اور 27 دسمبر کو جس دن عبداللہ نے مزید 1000 ڈالرز لے کر مدعی کے آفس آنا تھا، ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل کی ٹیم پہلے سے وہاں پہنچ گئی۔ جیسے ہی عبداللہ ڈالرز لے کر وہاں پہنچا۔ اسے حراست میں لے لیا گیا۔ ملزم کے پاس سے ڈالرز قبضے میں لئے گئے اور اس کے موبائل فونز اور تین بینکوں کے ماسٹر اور گولڈکارڈز بھی ضبط کیے گئے۔

ملزم کو ایف آئی اے آفس منتقل کرکے اس کے خلاف زیر دفعہ 419B/420/34کے تحت مقدمہ الزام نمبر 21/2023 درج کرکے مزید تفتیش شروع کی گئی۔ جس کیلئے عدالت سے ملزم عبداللہ کا جسمانی ریمانڈ لیا گیا۔ ابتدائی تفتیش میں ملزم نے انکشاف کیا کہ اسے معلوم تھا کہ یہ ڈالرز جعلی ہیں۔ اس نے یہ ڈالرز سراج نامی ایک شخص سے حاصل کیے تھے۔ جس کی اس سے کراچی کی مرکزی بولٹن مارکیٹ میں ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔

سراج کے موبائل نمبرز سے ملنے والی معلومات کے مطابق اس کا تعلق خیبر پختونخواہ کے علاقے مٹہ سے ہے۔ جس کی تلاش میں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ ملزم عبداللہ کی گرفتاری کے بعد دیگر کئی متاثرین کی جانب سے ایف آئی اے حکام سے رابطہ کیا گیا۔ جس میں جج اور وکلا بھی شامل ہیں۔ جنہیں ملزم نے 35 سے 40 لاکھ مالیت کے جعلی ڈالرز بیچے۔

یہ بھی معلوم ہوا کہ ملزم نے حال ہی میں ایک خاتون بینک افسر کے کہنے پر ایک شہری کو جعلی امریکی ڈالرز دیئے۔ جس کیلئے بینک افسر نے اپنے اکائونٹ سے عبداللہ کو پاکستانی کرنسی بھیجی۔ تاہم شہری نے اس بینک افسر کی شکایت کردی۔ جس پر مذکورہ بینک نے خاتون افسر کو ملازمت سے برخاست کردیا۔ بینک افسر بھی ملزم کے متاثرین میں شامل ہے۔

مزید معلوم ہوا ہے کہ ملزم سے ملنے والے جعلی ڈالرز کے حوالے سے امریکی سفارتی عہدیداروں کی جانب سے بھی رابطہ کرکے معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔ امریکی سفاتی حکام نے ان جعلی کرنسی نوٹوں کی پرنٹنگ کوالٹی کے حوالے سے معلومات حاصل کی ہیں۔ جبکہ سرکاری سطح پر جعلی امریکی کرنسی کی تصدیق بھی مراسلے کے ذریعے انہی سے کروائی جا رہی ہے۔

اس کے ساتھ ہی ایف آئی اے نے ان جعلی ڈالرز کی پرنٹنگ کے حوالے سے مختلف پہلوئوں کو شامل تفتیش کرلیا ہے۔ کیونکہ اب تک کے شواہد کے مطابق یہ امریکی نوٹ افغانستان یا ایران کے راستے اسمگل ہوکر آنے والے سامان میں لائے جانے کا امکان ہے۔ جبکہ دیگر ممالک سے ان کی پرنٹنگ ہوکر آنے کے حوالے سے بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ ان ایکسچینج کمپنیوں سے بھی پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ جن سے ملزم عبداللہ ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسی حاصل کرکے اوپن مارکیٹ میں بغیر دستاویزات کے شہریوں کو فروخت کرتا تھا۔ کیونکہ یہ ایک غیر قانونی عمل ہے۔