خورشید جونیجو کو ضمنی الیکشن لڑانے کا آسرا دے دیا گیا، فائل فوٹو
خورشید جونیجو کو ضمنی الیکشن لڑانے کا آسرا دے دیا گیا، فائل فوٹو

پیپلز پارٹی میں ٹکٹوں کی تقسیم سے کئی خواب بکھر گئے

ارشاد کھوکھر:

پیپلز پارٹی میں ٹکٹوں کی تقسیم سے کئی سابقہ پارلیمنٹیرین کے خواب بکھر گئے۔ جاوید ناگوری، ممتاز جکھرانی، خورشید جونیجو، سکندر راہپوٹو، کمال چانگ اور سسی پلیجو سمیت کئی سابق اراکین صوبائی و قومی اسمبلی کو اس مرتبہ پارٹی ٹکٹ نہ مل سکا۔ جبکہ سینئر رہنما مراد علی شاہ، سابق ایم پی اے عبدالکریم سومرو اور غوث بخش مہر خود انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ تاہم وہ اپنے بیٹوں کیلئے پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

گزشتہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوکر پیپلزپارٹی کا ساتھ دینے والے سابق ایم پی اے اسلم ابڑو اور شہریار شر، کو امید تھی کہ اس مرتبہ پیپلز پارٹی انہیں ٹکٹ دے گی۔ لیکن انہیں بھی ہری جھنڈی دکھا دی گئی۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں قومی اسمبلی کے 61 حلقوں میں سے 55 اور صوبائی اسمبلی کے 130 حلقوں میں سے 119 حلقوں کیلئے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کردیئے ہیں۔ ٹکٹ حاصل کرنے کے خواہش مند امیدواروں کے درمیان رسہ کشی و دیگر وجوہات کے باعث تقریباً 17 حلقوں کے لئے ابھی تک پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کئے گئے۔ تاہم 13 جنوری سے قبل ان حلقوں کے لئے بھی پارٹی کے حتمی امیدواروں کا اعلان ہوجائے گا۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی جوڑ توڑ کی سیاست اور دیگر جماعتوں کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت کرنے والے الیکٹیبلز کو ایڈجسٹ کرنے کے باعث سندھ میں پیپلز پارٹی کو پارٹی ٹکٹ جاری کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ جس کے باعث کئی پرانے ایم این ایز اور ایم پی ایز پارٹی قیادت کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کرارہے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ ٹھٹھہ سے تعلق رکھنے والی سینیٹر سسی پلیجو کے خاندان نے بڑا زور لگایا کہ اس مرتبہ انہیں ٹھٹھہ سے پارٹی ٹکٹ دیا جائے جس کئلئے سسی پلیجو نے خود بھی فارم جمع کرائے تھے۔ لیکن انہیں پارٹی ٹکٹ نہ مل سکا۔ اسی طرح جیکب آباد سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر ممتاز جکھرانی بھی پارٹی ٹکٹ سے محروم رہے۔ ان کی جگہ نئے امیدوار شیر محمد مغیری کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔

ضلع قمبر میں سابق ایم پی اے بیرسٹر گہنور خان اسران بھی پارٹی ٹکٹ سے محروم رہنے والوں میں شامل ہیں۔ ان کی جگہ پی پی سندھ کے صدر نثار کھوڑو کو پارٹی امیدوار بنایا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے عادل انڑ کو ایم پی اے کا ٹکٹ ملنے کے باعث ان کی جگہ نذیر بوگھیو کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے سابق ایم این اے خورشید جونیجو کیلئے لاڑکانہ میں پارٹی ٹکٹ کی گنجائش نہیں رہی۔

تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ خورشید جونیجو سے یہ کہا گیا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری لاڑکانہ کے ساتھ قمبر شہداد کوٹ سے بھی قومی اسمبلی کے حلقوں پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ بلاول بھٹو کی کامیابی کے بعد وہ ضلع قمبر شہداد کوٹ کا حلقہ جب خالی کریں گے تو ضمنی انتخابات میں وہاں سے خورشید جونیجو کو نامزد کیا جائے گا۔ ضلع جامشورو میں ملک اسد سکندر کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے بجائے قومی اسمبلی کے حلقے سے الیکشن لڑنے کی وجہ سے سابق ایم این اے سکندر راہپوٹو کے لئے پارٹی ٹکٹ کی گنجائش نہیں رہی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ راہپوٹو خاندان نے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے بھی کوشش کی تھی۔ لیکن مذکورہ ضلع میں ملک اسد سکندر جس حلقے سے صوبائی الیکشن لڑے تھے، اس حلقے سے اب سکندر شورو کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ جبکہ تھانہ بولا خان والے حلقے سے ملک اسد سکندر اپنے بیٹے ملک سکندر کے لئے پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، جس کے باعث وہاں سے گیان چند اسرانی پارٹی ٹکٹ سے محروم ہوگئے ہیں۔ تاہم ان کا نام اقلیتوں کی مخصوص نشست کی فہرست میں شامل ہے۔ ضلع بدین میں سابق ایم این اے کمال چانگ بھی پارٹی ٹکٹ سے محروم ہوگئے ہیں۔ اس طرح سابق ایم این اے جام مہتاب ڈہر بھی پارٹی ٹکٹ سے محروم ہونے والے امیدواروں میں شامل ہیں۔

ادھر لیاری سے سابق صوبائی وزیر جاوید ناگوری کی جگہ علی حسن ہنگورو کو پارٹی نے امیدوار نامزد کیا ہے۔ دوسری جانب 2018ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر اور ضلع جیکب آباد سے ایم پی اے منتخب ہونے والے اسلم ابڑو اور گھوٹکی سے منتخب ہونے والے شہریار شر نے 9 مئی کے واقعات کے بعد نہیں، بلکہ شروع سے ہی پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا۔ اور انہیں یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ آئندہ انتخابات میں انہیں پیپلز پارٹی ٹکٹ دے گی۔ اسی بنیاد پر انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت بھی اختیار کی۔ لیکن پھر بھی انہیں ٹکٹ نہیں ملا۔

سندھ میں 1985ء سے سدا بہار وزیر اور سدا بہار ایم پی اے تصور کئے جانے والے نوشہروفیروز کے سینئر رہنما مراد علی شاہ اس مرتبہ خود الیکشن نہیں لڑیں گے۔ تاہم وہ اپنے بیٹے حسن علی شاہ کیلئے پیپلز پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اسی طرح ضلع ٹنڈو محمد خان سے تعلق رکھنے والے سینئر پارلیمنٹیرین عبدالکریم سومرو نے بھی اپنی جگہ اپنے بیٹے خرم کریم سومرو کیلئے پارٹی ٹکٹ حاصل کیا ہے۔ جی ڈی ے اور فنکشنل لیگ کو الوداع کہہ کر خاندان سمیت پی پی میں شامل ہونے والے غوث بخش مہر خود الیکشن نہیں لڑیں گے۔ تاہم پیپلز پارٹی نے ان کے بیٹے شہریار مہر کو قومی اور دوسرے بیٹے عارف مہر کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا ہے۔

سندھ میں قومی اسمبلی کے 61 حلقوں میں سے 55 حلقوں اور سندھ اسمبلی کے 130 حلقوں میں سے 119 حلقوں میں اپنے حتمی امیدواروں کا اعلان کردیا ہے۔ سکھر کے حلقہ این اے 200 میں نعمان اسلام شیخ اور محمد علی شیخ میں پارٹی ٹکٹ کے معاملے پر رسہ کشی جاری تھی تاہم اس میں نعمان اسلام کامیاب ہوگئے ہیں۔ ضلع خیرپور میں اپنی جگہ منظور وسان نے اپنے بیٹے بیرسٹر ہالار کو امیدوار نامزد کروا دیا ہے۔ تاہم وہ چاہتے ہیں کہ پی ایس 31 میں انہیں بھی پارٹی ٹکٹ دیا جائے۔مذکورہ ضلع میں پارٹی ٹکٹ کی تقسیم کا اختیار سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو دیا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ قائم علی شاہ کی خواہش ہے کہ مذکورہ حلقے سے حاضر سروس بیوروکریٹ مصطفیٰ سہاگ کی بیٹی کو ٹکٹ دیا جائے۔ اس طرح جن حلقوں میں حتمی امیدواروں کا فیصلہ ہونا باقی ہے، ان میں صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں سے پی ایس 18 اوباوڑو، پی ایس 31 تحصیل کنگری، حیدرآباد سٹی دو حلقے پی ایس 64 اور پی ایس 65، ضلع بدین کا حلقہ پی ایس 70، ضلع ملیر میں ابراہیم حیدری کا حلقہ پی ایس 88، ضلع کورنگی میں پی ایس 90، پی ایس 92، ضلع جنوبی میں پی ایس 108، پی ایس 109، ضلع غربی کا حلقہ پی ایس 117، جبکہ قومی اسمبلی کے حلقوں میں ضلع کورنگی کے تینوں حلقے ، این اے 232، این اے 233، این اے 234، ضلع حیدرآباد کا حلقہ این اے 220 اور ضلع جنوبی کے حلقے این اے 240 میں اپنے امیدواروں کا اعلان 13 جنوری سے قبل کیا جائے گا۔