گواہ کا نام واپس نہیں لیا جاسکتا ، گواہ کے بیان پر جرح کی ہدایت دی جائے، فائل فوٹو
گواہ کا نام واپس نہیں لیا جاسکتا ، گواہ کے بیان پر جرح کی ہدایت دی جائے، فائل فوٹو

نقیب قتل کیس کا اہم مرحلہ شروع

سید حسن شاہ:

نقیب اللہ قتل کیس کے ملزمان سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت اور شعیب شوٹر سمیت 7 پولیس اہلکاروں کے خلاف اہم قانونی مرحلہ شروع ہوگیا۔ اس اہم مرحلے میں ٹرائل کے دوران قاتل پولیس اہلکاروں کے خلاف عینی شاہدین سمیت 51 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرائے جائیں گے۔ پراسیکیوشن کے پاس ٹرائل کے دوران ساتوں ملزمان کے خلاف جرم ثابت کرنے کے لئے دستاویزات سمیت ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ملزمان کے خلاف سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں ملزمان 7 پولیس افسران و اہلکاروں امان اللہ مروت، شعیب شوٹر، گدا حسین، صداقت حسین، ریاض احمد، راجا شمیم اور محسن عباس کے خلاف نقیب اللہ قتل کیس زیر سماعت ہے۔ ساتوں ملزمان پر فرد جرم عائد کردی گئی ہے اور اب اہم مرحلہ شروع ہوگیا ہے۔ اس اہم مرحلے میں گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے جانا ہیں جو پورے کیس میں اہمیت کے حامل ہیں۔

ٹرائل کے دوران پراسیکیوشن کی جانب سے تقریبا 51 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرائے جانے ہیں۔ کیس کے گواہوں میں عینی شاہدین، پرائیویٹ گواہان، روزنامچوں میں انٹری کرنے والے انسپکٹر، مقتولین کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ایم ایل او، کیمیکل ایگزامنر، فارنسک ایکسپرٹ چند گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے والے ڈی ایس پی، تفتیشی افسران سمیت پولیس افسران و اہلکار شامل ہیں۔

اس کے علاوہ پراسیکیوشن کے پاس نقیب اللہ قتل کیس میں ملزمان کے خلاف جرم ثابت کرنے کے لئے دستاویزی شواہد بھی موجود ہیں جن میں روزنامچوں کی انٹریز، جائے وقوعہ کا نقشہ، فارنسک رپورٹس، گولیوں کے خالی خول کی رپورٹس، معائنے سمیت دیگر رپورٹس، مختلف ویڈیوز پر مشتمل سی ڈیز، اعلیٰ افسران کے لیٹرز، مختلف اداروں کو لکھے گئے لیٹرز، میموز، ایم ایل اوز کی رپورٹس، مقتولین کی وجہ موت کے سرٹیفکیٹس، مقتولین کے خون آلود کپڑوں کی فارنسک رپورٹس، مقتولین کی پوسٹمارٹم رپورٹس، سی ڈی آرز، ملزمان کی لوکیشن میپس، دھماکہ خیز مواد کے معائنہ کی رپورٹ، ملزمان کی وقوعہ پر موجودگی کی شہادتیں، ڈیجیٹل شہادتیں سمیت دیگر شواہد شامل ہیں۔

ریکارڈ کے مطابق سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت، شعیب شوٹر سمیت 7 پولیس اہلکار وہی ملزمان ہیں جو جعلی قرار دیئے گئے پولیس مقابلے کے دوران موقع پر موجود تھے۔ جبکہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار بھی عدالت کو دیئے گئے اپنے بیان میں امان اللہ مروت پر پولیس مقابلے کا ملبہ ڈال چکے ہیں جو ریکارڈ پر موجود ہے۔

اسی طرح پراسیکیوشن کے پاس ان ملزمان کے خلاف ٹھوس ثبوت و شواہد بھی موجود ہیں۔ پراسیکیوشن کی جانب سے ان ملزمان پر جو الزامات عائد کئے گئے ہیں اس میں سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت پر الزام ہے کہ اس نے واقعے کے دوران سرکاری ایس ایم جیز کے چلیدہ خول قبضے میں نہیں لئے۔ جبکہ موقع سے جو خول ملے تھے وہ جان بوجھ کر رکھے گئے جس سے اصل حقائق کو چھپا یا اور ثبوت ختم کئے گئے۔ جبکہ انہوں نے ٹیمپرنگ اور حصول انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش بھی کی۔

اسی طرح پراسیکیوشن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ فارنزک رپورٹ، ڈیجیٹل ثبوت، ملزمان کی لوکیشن، ٹیکنیکل رپورٹس ودیگر شواہد سے امان اللہ مروت، راجہ شمیم، گدا حسین، صداقت حسین، محسن عباس، رانا ریاض اور شعیب شوٹر کے خلاف نقیب اللہ سمیت مقتولین کا ماورائے عدالت قتل، مقتولین کو کالعدم تنظیموں کا کارکن بتانا، میڈیا کے ذریعے جھوٹے واقعات ہائی لائٹ کرکے اپنے ماورائے عدالت قتل کو تحفظ دینا، شہادتوں کو ضائع کرنے کا جرم ثابت ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کی جانب سے جنوری 2023ء میں نقیب اللہ قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت 18 پولیس افسران و اہلکاروں کو بری کردیا گیا تھا جبکہ اس کیس میں 7 ملزمان سابق ایس ایچ او سب انسپکٹر امان اللہ مروت، سب انسپکٹر شیخ محمد شعیب عرف شعیب شوٹر، اے ایس آئی گدا حسین، ہیڈ کانسٹیبل محسن عباس، ہیڈ کانسٹیبل صداقت حسین شاہ، پولیس اہلکار راجہ شمس مختار اور رانا ریاض احمد مفرور تھے۔ یہ ساتوں ملزمان نقیب اللہ قتل کیس میں ابتدا سے ہی مفرور تھے۔ ان ملزمان کی عدم گرفتاری پر متعلقہ عدالت کی جانب سے انہیں اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔ نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ آنے کے بعد ایس ایچ او سمیت 7 ملزمان نے مئی 2023ء میں رہائی کی امید میں خود کو سرنڈر کردیا تھا۔