نواز طاہر:
پاک چائنا اقتصادی راہداری (سی پیک منصوبے) کے تحت کراچی سے اسلام آباد سفری وقت کم کرنے کے لئے بنائی جانے والی سکھر ملتان موٹر وے کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے خوف سے بند رہنے لگی۔ جبکہ ڈاکوئوں اور عام لوگوں کی طرف سے جگہ جگہ سے اس موٹر وے تک رسائی کچی سڑک جیسی بنادی ہے۔ اسی ڈاکو راج کی وجہ سے ایک ہفتہ تک گھوٹکی سے اقبال آباد سیکشن بند رکھا گیا۔
یاد رہے کہ ملتان سے سکھر تک موٹر وے بننے سے سندھ اور پنجاب کے عوام کا سفری فاصلہ کئی گھنٹے کم ہوگیا ہے۔ لیکن اس سڑک پر حکام کی توجہ نہ ہونے اور اس سیکشن کا بڑا حشہ کچے کے علاقے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کا سکہ حکومتی رٹ سے زیادہ لگا ہے اور خاص طور پر جب سے کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا، ڈاکوئوں نے بھی اس علاقے کو ٹارگٹ کرلیا ہے اور یہاں سفر رات کے اوقات میں خطرناک ہوگیا ہے۔ جس کی وجہ سے سردیوں میں زیادہ عرصے تک یہ سیکشن بند کردیا جاتا رہا ہے۔ صرف دھند جیسے موسم ہی میں نہیں، بلکہ موسم بہتر ہونے کے باوجود یہ سڑک رات کے اوقات میں محفوظ تصور نہیں کی جاتی رہی۔ لیکن شہریوں کو اصل صورتحال سے آگاہ کرنے کے لئے ان کا رخ دوسری طرف موڑ دیا جاتا رہا ہے، جس سے انہیں دوبارہ قومی شاہراہ کی طرف لوٹنا پڑتا ہے اور ان کا گھنٹوں کم ہونے والا سفر مزید بڑھ جاتا ہے۔
اقبال آباد سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ملتان کی طرف سے آنے والی ٹریفک کو جب یہاں سے سی پیک روڈ لیتی ایل 5 سے واپس موڑا جاتا ہے، تو انہیں بارہ کلومیٹر واپس کے ایل پی لیتی کراچی لاہور پشاور روڈ (قومی شاہراہ) پر سفر کرنا پڑتا ہے۔ اقبال آباد سے سکھر تک تقریباً ایک سو اسی کلومیٹر کے فاصلے کا سوا دو گھنٹے کا سفر، راستہ تبدیل کرنے سے پانچ گھنٹوں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اقبال آباد انٹرچینج سے بارہ کلومیٹر واپس اقبال آباد سبراک کے ایل جی (کراچی لاہور ، پشاور ) شاہراہ پر چڑھنا پڑتا ہے اور اس سے یہ سفر ساڑھے چار گھنٹے کا بن جاتا ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ درحقیقت حکومت اپنی ذمہ داری پوری طرح سے ادا نہیں کرتی۔ کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کے ساتھ ساتھ سی پیک روڈ پر وارداتیں کرنے والوں کے لئے بھی متبادل اور جڑواں آپریشن کی ضرورت ہے۔ کیونکہ سی پیک روڈ کا جتنا علاقہ کچے کے علاقے سے گزرتا ہے وہاں پر اغوا کی وارداتیں کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر افراد نے بھی جگہ جگہ سے آہنی جال توڑ رکھی ہے۔ یہ این ایچ اے کے دفاتر سے صرف ساٹھ گز کے فاصلے پر ہے۔ این ایچ اے کے حکام کی آنکھوں کے سامنے لوگ تو اس ٹوٹی ہوئی آہنی جال میں سے شاہراہ پر آتے ہیں اور اسی جگہ سے ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہوئے آتے جاتے ہیں۔ لیکن انہیں کوئی روکتا ہی نہیں حالانکہ اسی فنس وال کی وجہ سے متعدد حادثات رونما ہوچکے ہیں۔
ظاہرپیر سے ایک سینئر صحافی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ کچے کے علاقے کا معاملہ ایک طرف رکھ دیں، صرف ظاہر پیر انٹرچینج سے ملحقہ این ایچ اے کے دفاتر سے تقریباً متصل حفاظتی جنگلے کی بات کریں تو کیا یہ کسی کو نظر نہیں آتا؟ درحقیقت کوئی بھی اپنی ڈیوٹی کرنا ہی نہیں چاہتا۔ ہفتے کو نمائندہ امت نے مغرب کے وقت ایک موٹر سائیکل سوار کو ظاہر پیر انٹرچینج سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر ٹوٹی ہوئی اسی آہنی جال میں سے گزرتے دیکھا۔ اس وقت انٹرچینج سے اترکر ظاہر پیر شہر کی طرف آنے والی سڑک رواں تھی اور پولیس کی دو گاڑیاں بھی گزریں، لیکن کسی نے اس غیر قانونی اور خطرناک عمل کا نوٹس نہ لیا۔ دستاویزات کے مطابق این ایچ 5 کی یہ جال پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے دیگر جگہ سے توڑی گئی ہے اور این ایچ اے کی کئی جال چوری کرلی گئیں ہیں، جسے نہ تو دوبارہ لگایا گیا ہے اور نہ ہی چوری کے راستے بند کئے گئے ہیں۔
سڑک کی بندش اور خاص طور پر شام کو چھ سے صبح چھ بجے تک ٹریفک کے لئے بند رکھنے کے جواز کی وضاحت کرتے ہوئے موٹر وے پولیس ملتان کا کہنا ہے کہ ہفتہ کو یہ سڑک مکمل وقت کے لئے کھول دی گئی تھی۔ جبکہ اس وقت شام کے سات بجے ہیں۔
موٹر وے پولیس کے مطابق کچے کے علاقوں میں ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن اور اس کے ردعمل میں ڈاکوئوں کے سڑک پر رات کو قبضہ کرنے کا تاثر درست نہیں، ایسا لوگ صرف اپنے خوف کی وجہ سے بیان کرتے ہیں۔ درحقیقت سڑک کی مرمت رات کے اوقات میں آسان ہوتی ہے کیونکہ رات کو ٹریفک کا رش کم ہوتا ہے۔ جہاں تک جال توڑنے کا معاملے ہے تو موٹر وے پولیس متعدد لوگوں کو گرفتار کرکے مقامی تھانوں کے حوالے کرچکی ہے۔ موٹر وے پولیس کے ساتھ مقامی لوگوں کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔