امت رپورٹ :
الیکشن میں دھاندلی پر بطور احتجاج جے یو آئی، اسمبلیوں سے مستعفی ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ عید بعد کرے گی۔ اس سلسلے میں حتمی رائے جے یو آئی کی مرکزی مجلس عمومی دے گی۔ ہفتے کے روز جمعیت علمائے اسلام نے دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر احتجاج کیا، تاہم وہ الگ سے ایک منظم ملک گیر احتجاجی تحریک کی تیاری بھی کر رہی ہے۔
اس سلسلے میں پہلے مرحلے میں چاروں صوبوں میں جے یو آئی کی جنرل کونسلوں کے اجلاس بلائے گئے ہیں۔ تاکہ احتجاج کے طریقہ کار اور حکمت عملی پر تمام صوبائی قیادت اور کارکنوں کواعتماد میں لے لیا جائے۔ پشاور میں 27 فروری کو جے یو آئی خیبر پختونخوا، کراچی میں 3 مارچ کو جے یو آئی سندھ، کوئٹہ میں 5 مارچ کو جے یو آئی بلوچستان اور لاہور میں 9 مارچ کو جے یو آئی پنجاب کی مجالس عمومی کے اجلاس ہوںگے۔ عید کے بعد مرکزی مجلس عمومی، جسے فائنل اتھارٹی حاصل ہے، کا اجلاس بلایا جائے گا۔
اس اجلاس میں یہ حتمی فیصلہ بھی کیا جائے گا کہ پارلیمانی سیاست کو خیرباد کہہ دیا جائے یا نہیں۔ اگر مرکزی مجلس عمومی کے اجلاس میں پارلیمانی سیاست ترک کردینے کے فیصلے پر اتفاق رائے ہو گیا تو پھر جے یوآئی کے تمام منتخب ارکان اسمبلی مستعفی ہو جائیں گے۔ جے یو آئی کی مرکزی مجلس عاملہ یہ سفارش پہلے ہی کر چکی ہے۔ تاہم اس ٹائم ٹیبل سے واضح ہے کہ جے یو آئی اگر تحریک شروع کرتی ہے تو یہ ہلا گلا عید کے بعد ہی ہوگا۔ 9 مارچ کو جے یو آئی پنجاب کی آخری صوبائی جنرل کونسل کا اجلاس ہے۔ اس کے ایک دو روز بعد ماہ رمضان شروع ہو جائے گا۔ لہٰذا حتمی فیصلے کے لیے مرکزی مجلس عمومی کا اجلاس عید کے بعد بلایا گیا ہے، یعنی رمضان کا مہینہ قدرے پرسکون گزرے گا۔
عمران کے اقتدار سے باہر ہونے کے بعد سے پی ڈی ایم عملی طور پر غیر فعال تھی۔ اب جے یو آئی کی جانب سے حالیہ احتجاجی تحریک کا اعلان ایک طرح سے اس اتحاد کے بکھرنے کی نوید ہے۔ کیونکہ جے یوآئی ایک ایسے وقت میں دوبارہ دھرنے اور احتجاجی جلسے جلوس کرنے جا رہی ہے، جب مرکز اور پنجاب میں نون لیگ کی حکومت ہوگی، جو پی ڈی ایم میں جے یو آئی کی سب سے بڑی اور اہم اتحادی پارٹی تھی۔ دیکھنا ہے کہ آگے چل کر جے یو آئی کی احتجاجی تحریک میں وہ دیگر پارٹیاں بھی شامل ہوں گی یا نہیں، جو الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دے رہی ہیں۔ یا پھر جے یو آئی مستقبل قریب میں حکومت کا حصہ تو نہیں بن جائے گی؟
اس حوالے سے جب جے یو آئی کے اہم رہنما سے استفسار کیا گیا تو ان کا کہنا تھا ’’ہم نے وفاق یا صوبوں میں، کہیں بھی حکومت کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور ہم تحریک چلانے جارہے ہیں۔‘‘ جب ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا اتنا مصمم ارادہ کر لیا گیا ہے کہ اگر نواز شریف خود بھی مولانا کو منانے کے لئے آجائیں، تب بھی حکومت کا حصہ بننے سے انکار کردیا جائے گا؟ جے یو آئی رہنما کا کہنا تھا ’’سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ نہ بندگلی میں جایا جاتا ہے۔ البتہ آج کے حالات میں ہماری پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم نے حکومت میں نہیں جانا اور اپنے اس موقف پر ہم کھڑے ہیں۔‘‘
جے یو آئی کو شکوا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک میں مولانا فضل الرحمان کو فرنٹ فٹ پر کرنے والی نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو اقتدار ملا تو ان کا رویہ بدل گیا ہے۔ ایسے میں پیپلز پارٹی کی جانب سے مولانا پر تیر برسانے کے عمل نے اس تلخی کو بڑھا دیا ہے۔ ایک جے یو آئی رہنما کے بقول ’’ان دونوں پارٹیوں پر جب برا وقت آتا ہے تو انہیں مولانا یاد آتے ہیں۔ یہ بحرانوں میں گھرے ہوں تو ہمارے دوست بن جاتے ہیں۔ جب اچھی روٹی کھانے کو ملے تو ان کی گردن میں سریا آجاتا ہے۔ حالانکہ انہیں جو حکومت ملی ہے، وہ اتنی کمزور ہے کہ چھ ماہ کا عرصہ بھی گزار لے تو بڑی بات ہوگی۔‘‘
دوسری جانب اسحاق ڈار سے منسوب ایک بیان نے ماضی کے اتحادیوں کے مابین مزید بدمزگی پیدا کی۔ میڈیا پر چلنے والی ایک خبر میں کہا گیا تھا کہ نون لیگ اور جے یو آئی کے وفود کے درمیان ملاقات کے موقع پر سیکریٹری جنرل جے یو آئی عبدالغفور حیدری نے صوبائی حکومت میں اتحاد کی پیشکش کی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی اور نون لیگ کم ازکم بلوچستان میں حکومت بناسکتی ہیں۔ اس پر نون لیگ کے رہنما اسحاق ڈار کا جواب تھا ’’ہم تو چاہتے تھے کہ مل کر چلا جائے۔ لیکن مولانا آپ نے بہت دیر کردی،
گزشتہ چار دن سے آپ سے رابطہ کر رہے تھے لیکن رابطہ نہیں ہوا۔ اب ہم نے پیپلز پارٹی کے ساتھ شراکت اقتدار کا معاہدہ کرلیا ہے، نون لیگ بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے والی ہے۔‘‘ اس خبر سے جے یو آئی کے اس موقف کی تردید بھی ہو رہی تھی کہ اس نے حکومت کا حصہ بننے کے بجائے تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم رابطہ کرنے پر جے یو آئی کے ایک اور رہنما نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے دعوی کیا کہ میڈیا پر بے سروپا خبر چلائی گئی۔
رہنما کے بقول ’’پچھلے تین چار روز سے نون لیگی رہنما ایاز صادق مسلسل مولا نا عبدالغفور حیدری کو فون کر رہے تھے کہ ملاقات کرنی ہے۔ جب ان سے ملاقات کا ایجنڈا معلوم کیا گیا تو کہا گیا کہ بلوچستان کے حوالے سے مشاورت چاہتے ہیں، جس پر مولانا عبدالغفور حیدری اپنے بلوچستان کے دوتین ایم پی پیز کے ہمراہ ملاقات کے لیے چلے گئے۔
اس ملاقات کے اختتام پر کہا گیا تھا کہ اس کا مشترکہ تحریری بیان جاری کیا جائے گا۔ لیکن اس سے پہلے ہی میڈیا پر اسحاق ڈار سے منسوب بیان چلنا شروع ہوگیا۔ جس میں کہا گیا کہ بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے مولانا غفور حیدری کی پیشکش اسحاق ڈار نے مسترد کر دی۔‘‘ جے یوآئی رہنما کا دعوی تھا کہ بعد میں ایاز صادق فون کرکے اس پر معذرت کرتے رہے۔