عمران خان :
ایکسپورٹ پروسسنگ زون کے نام پر جنوبی کوریا سے آنے والی درجنوں کھیپوں میں 300 کے قریب سامان کے کنٹینرز میں کی جانے والی اسمگلنگ اسکینڈل پر حتمی کارروائی کے لئے احکامات جاری کردئے گئے۔ بعض کسٹم افسران اور زون کے افسران کی ملی بھگت سے یہ مالیاتی فراڈ کرنے والی کمپنیوں کے مالکان اور ایجنٹوں کے خلاف اس کیس میں 9 مقدمہ درج ہیں جن کی تفتیش کسٹمز انٹیلی جنس کراچی میں جاری ہے۔
مذکورہ اسکینڈل میں 2 برس کی تاخیر اور عدالتی کارروائی کے بعد گزشتہ روز عدالت کی جانب سے کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کے افسر کو احکامات جاری کردئے گئے کہ ملزمان کے خلاف تفتیش مکمل کرکے حتمی چالان رپورٹ پیش کردی جائے ۔جس کے بعد اس پر کام شروع کردیا گیا ہے ۔
معلومات کے مطابق ڈائریکٹوریٹ کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کی سابقہ اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم کے انچارج دوست محمد نے ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کراچی میں قائم دو کمپنیوں میسرز اسٹیل ویڑن پرائیویٹ لمیٹڈ اور میسرز رائل ایمپیکس لمیٹڈ سمیت اسی مافیا کے تحت ایکسپورٹ پروسیسنگ زون سے باہر چلائی جانے والی 2 کمپنیوں میسرز زبیر اسٹیل اور میسرز رضوان ایس بروز لمیٹڈ کے خلاف اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ کے اہم شواہد حاصل کئے تھے۔ ان تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ ان کمپنیوں کے تحت یہ مافیا 2015ء سے اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ کر رہی ہے۔ اس میں انہیں کسٹم کے بعض افسران اور ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کے افسران کی بھرپور معاونت حاصل رہی ہے۔
ان کمپنیوں کے چلانے والے افراد ظاہری طور پر مالکان اور امپورٹرز ہیں جبکہ پس پردہ وہ سرکاری افسران کی جانب سے کمائے گئے کالے دھن سے ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرکے کئی گنا زائد منافع کما رہے تھے۔ تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا کہ ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کراچی میں قائم ان کمپنیوں کے نام پر آنے والے سامان کے کنٹینرز بیرون ملک سے دیگر دو کمپنیوں کے نام پر منگوائے جاتے تھے۔ تاہم کراچی میں بندرگاہوں سے انہیں ایکسپورٹ پروسیسنگ زون میں قائم کمپنیوں میسرز اسٹیل ویڑن پرائیویٹ لمیٹڈ اور میسرز رائل ایمپیکس لمیٹڈکے نام پر منگواکر سبسڈی پر کم ڈیوٹی اور ٹیکس پر کلیئر کروا کر اس سامان کو ایکسپورٹ پروسیسنگ زون میں لانے کے بجائے میسرز زبیر اسٹیل اور میسرز رضوان ایس بروز لمیٹڈ کے نام پر اوپن مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا رہا۔ اس کے ساتھ ہی اس مافیا نے ایک کنسائنمنٹ کے لئے کھولی گئی ایل سی میں رد و بدل کرکے کئی کنسائنمنٹس کی ادائیگی کے نام پر کروڑوں ڈالر کا زر مبادلہ بیرون ملک بھجوایا جو کہ منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتا ہے۔
ذرائع کے بقول ڈائریکٹوریٹ کسٹمز انٹیلی جنس کراچی نے اس انکوائری میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے ماسٹر مائنڈ اور دیگر درجن بھر ملزمان جن میں کمپنیوں کے مالکان اور ایجنٹ شامل تھے ان کے خلاف مجموعی طور پر آگے چل کر 9 مقدمات درج کئے۔ اس میں ماسٹر مائنڈ کو گرفتار بھی کرلیا گیا تھا۔ تاہم اس وقت کے ایک سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر کی ہدایت پر اس وقت کے سپرٹنڈنٹ کسٹمز اے ایس او انٹیلی جنس کے ذریعے بغیر کارروائی کئے ملزم کو رہا کرلیا گیا تھا۔
ماسٹر مائنڈ کو خیابان راحت میں راحت پارک کے قریب سے حراست میں لیا گیا تھا۔ اس کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ تفتیشی افسر اسی وقت عدالت میں بیان جمع کروارہا تھا کہ اس نے مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا ہے اور اس کی حراست میں لئے جانے کی انٹری موجود ہے تاہم جب وہ دفتر واپس آیا تو ملزم کو ایک گھنٹہ قبل ہی چھوڑا جاچکا تھا اور اس کی رہائی کی کوئی تحریری رپورٹ بھی درج نہیں کی گئی۔ جوکہ کیس میں اہم ثابت ہوسکتا ہے اور سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر اور سپرٹنڈنٹ کو اس جواب دینا ہوگا۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ ملزم کے خلاف اسپیشل انوسٹی گیشن یونٹ میں جاری تحقیقات میں اہم شواہد موجود ہیں۔ جبکہ ملزم رواں ماہ ای پی زیڈ کے نام پر جنوبی کوریا سے منگوائی گئی11 کنسائمنٹس میں 208 کنٹینرز کو قاسم انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل سے بل آف لیڈنگ میں خلاف ضابطہ تبدیلی کر کے ٹیکس چوری کے مقدمے میں بھی مطلوب ہے اور کسٹم انٹیلی جنس کے اسی مقدمے میں سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت بھی حاصل کرچکا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس اسکینڈل میں تفتیشی افسر نے محکمہ کے اندر اور باہر سے آنے والے دبائو کے نتیجے میں کام کرنے سے انکار بھی کیا تھا اور عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ تاہم اس سے پہلے انہوں نے بعض کسٹمز حکام اور ملزمان کی آپسی ملی بھگت کے حوالے سے ایف بی آر حکام کے علاوہ عدالت اور ایف ٹی او کو خطوط بھی ارسال کئے جس میں انہوں نے اپنے اوپر پڑنے والے دبائو اور ہراسگی کے الزامات عائد کئے۔ اس کے ساتھ ہی تفتیشی افسر کی جانب سے اس اسکینڈل پر حساس اداروں اور ایف آئی اے کے اشتراک سے ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم یعنی جے آئی ٹی بنانے کی سفارش بھی کی تاکہ بااثر ملزمان کے خلاف تمام حقائق سامنے لائے جاسکیں اور اربوں روپے منی لانڈرنگ کے نیٹ ورک کو توڑا جاسکے۔
ذرائع کے مطابق اس دوران ملزمان نے اپنے وکلا کے توسط سے تفتیشی افسران کے خلاف کئی پٹیشنیں عدالتوں میں دائر کیں اور کسٹمز حکام کے ساتھ ہی ایف ٹی او کو بھی خطوط بھیجے کہ اس تفتیشی افسر کے خلاف کارروائی کی جائے۔ تاہم اس تمام عرصہ کے بعد مختلف درخواستوں پر ہونے والی سماعتوں کے بعد گزشتہ ہفتے عدالت کی جانب سے یہ فیصلہ دیا گیا کہ یہی تفتیشی افسر اسکینڈل پر تحقیقات جاری رکھیں اور اپنا حتمی چالان رپورٹ پیش کریں۔