عمران خان:
ایف آئی اے نے21 سوئٹ سپاری کمپنیوں کے خلاف اربوں روپے کی منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کی تحقیقات شروع کردیں۔
چھان بین کے لیے کمپنیوں کے مالکان کے اثاثوں اور بینکنگ ریکارڈ طلب کرلیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ سے بھی ان سوئٹ سپاری کمپنیوں کی جانب سے بیرون ملک سے در آمد کی گئی چھالیہ کی کھیپوں اور اس کی کلیئرنس کے لئے حاصل کئے گئے سرٹیفکیٹس کی تفصیلات بھی طلب کرلی گئی ہیں کیونکہ ملک میں چھالیہ بغیر پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کی این او سی اور لیبارٹری رپورٹ کے در آمد نہیں کیا جاسکتا۔اگر محکمہ کسٹمز اور پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ سے ان سوئٹ سپاری کمپنیوں کی جانب سے چھالیہ کی در آمد کا ریکارڈ آپس میں میچ نہیں کرتا تو پھر اس کا مطلب ہے کہ تمام کمپنیاں جعلسازی اور ملی بھگت سے اسمگلنگ کا چھالیہ استعمال کر رہی ہیں ۔جس پر مزید تحقیقات جاری ہیں ۔
موصول ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے اینٹی منی لانڈرنگ سرکل کراچی کی جانب سے سوئٹ سپاری بنانے والی 21کمپنیوںاور ان کے مالکان کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات جاری ہیں جس میں گزشتہ دنوں ایک تفصیلی مراسلہ ایف آئی اے اے ایم ایل سرکل کراچی کی جانب سے پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کو جاری کیا گیا ہے جس میںسنی فوڈ پروڈکٹس ،فوڈ سکیورٹی سلوشن،گولڈ وے ہائی جین وے کمپنی ،رابعہ اینڈ کو ،کرن فوڈ انڈسٹریز ،جیکر پروڈکٹس ، گلیکسی انٹر نیشنل کمپنی ،الحذیفہ انڈسٹریز،عمران فوڈ پروڈکٹس ،سہیل ایمپیکس ،گومل انٹر پرائزز ،رابعہ اینڈ کو ،عزیز فوڈ پروڈکٹس ،کرن فوڈ پروڈکٹس ،آنسہ فوڈ پروڈکٹس ،کرن پروڈکٹس ،فیروز فوڈ پروڈکٹس ،جیکر فوڈ پروڈکٹس ،گولڈن فوڈ پروڈکٹس ،منصور فوڈ پروڈکٹس کے نیشنل ٹیکس نمبرز کے ساتھ تفصیلات مانگی گئی ہیں ۔
ان کمپنیوں کی جانب سے سوئٹ سپاری کی جو مصنوعات روزانہ کی بنیاد پر تیار کرکے مقامی مارکیٹوں اور دکانوں پر سپلائی کی جاتی ہیں ۔اس میٹھی چھالیہ کے لئے بیرون ملک سے در آمد کئے جانے والے چھالیہ کے حوالے سے ریکارڈ طلب کیا گیا ہے۔مراسلے میں بتایا گیا کہ ان کمپنیو ں کے مالکان کے خلاف انکوائری نمبر 73/2023درج ہے جس میں منی لانڈرنگ کی تحقیقات جاری ہیں ۔
اسی انکوائری میں رشوت کے کالے دھن سے ملک اور بیرون ملک خاندان اور ملازمین کے ناموں پر کروڑوں روپے کی جائیدادیں ،طلائی زیورات ،گاڑیاں ،اثاثے بنانے کے الزامات میں محکمہ کسٹمز ،پولیس ،سی ٹی ڈی افسران اور اسمگلروں کے خلاف اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت50کے لگ بھگ ملزمان بھی شامل تفتیش ہیں ۔
یہ تحقیقات ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل کراچی کے مقدمہ الزام نمبر 19/2023کی آف شوٹ انکوائری کے طور پر شروع کی گئی ہے۔ جس میں محکمہ کسٹمز ،پولیس ،سی ٹی ڈی افسران اور اسمگلروں سمیت 50ملزمان کے خلاف کرپشن ،اختیارات کے ناجائز استعمال اور اسمگلنگ کی سہولت کاری کے الزامات کے تحت گزشتہ ہفتے عدالت میں حتمی چالان پیش کیا گیا تھا۔
دستاویزات کے مطابق دو ماہ قبل ایف آئی اے نے کرپشن ،اختیارات کے ناجائز استعمال اور اسمگلروںکی سہولت کاری کے الزامات کے میگا اسکینڈل کا حتمی چالان 50ملزمان کے خلاف عدالت میں پیش کردیا نامزد ملزمان میں کسٹمز ،پولیس کے افسران کے اعلیٰ اور ماتحت افسران کے ساتھ ہی چھالیہ کی اسمگلنگ میں ملوث پرائیویٹ ملزمان اور سوئٹ سپاری فیکٹریوں کے مالکان شامل ہیں۔
ذرائع کے بقول ان 21کمپنیوں میں سے ایک بڑی کمپنی سنی ٹریڈرز اس اسکینڈل کے مرکزی ملزم عمران نورانی کے بھائی نعمان میمن عرف ڈان کی ہے ۔جبکہ دیگر دو کمپنیوں میں ایف بی آر کے ایک ایڈ یشنل کمشنر کے عزیزوں کے معاملات بھی شامل ہیں ۔اور یہی دونوں افراد تمام سوئٹ سپاری کمپنیوں کے لئے پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے بعض کرپٹ افسران کے ذریعے مضر صحت چھالیہ کی کلیئرنس کے لئے بھی سر ٹیفکیٹ بھاری رشوت کے عوض حاصل کرتے رہے ہیں ۔اس دوران اربوں روپے کی ٹیکس چوری کی گئی اور منی لانڈرنگ کی گئی ۔جس کے نتیجے میں ملک میں اور بیرون ملک اربوں روپے کے اثاثے بنائے گئے۔
اسکینڈل کے مرکزی ملزم عمران نورانی نے گزشتہ دنوں کیس کی ایک سماعت کے دوران عدالت کے رو برو اعترافی بیان دیا تھا جس میں اس نے بتایا تھا کہ 2018میں جب چھالیہ کی قانونی در آمد بند ہوئی تو کسٹمز کی ٹیموں نے شہر بھر کی سوئٹ سپاری کی فیکٹریوں پر چھاپے مار کر اسمگل شدہ چھالیہ پکڑنی شروع کردی تھی جس کے بعد تمام فیکٹری مالکان کے نمائندہ کی صورت میں عمران نورانی نے کسٹمز ،پولیس اور دیگر افسران تک کروڑوں روپے پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا اور یہ سلسلہ وقتاً فوقتاً 2023تک چلتا رہا۔ایف آئی اے کے مطابق ان کی فیکٹریوں میں سنی سوئٹ سپاری ،بمبئی سوئٹ سپاری،نگینہ سوئٹ سپاری،رتنا سوئٹ سپاری،میٹرو سوئٹ سپاری،پیپسی سوئٹ سپاری اور دیگر شامل ہیں۔
تحقیقات میں کسٹمزکے میگاکرپشن کیس میں ملوث کسٹمزافسران ودیگرایجنسیوں کے افسران اورپرائیوٹ افرادکی آمدنی اوران کے اخراجات کی تفصیلات حاصل کرلی گئی ہیں ۔
ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر مذکورہ ملزمان (پاکستان کسٹمز کے افسران) اور پرائیویٹ افراد نے اپنے اور اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ ساتھ نوکروں کے ناموں پر بڑی منقولہ/غیر منقولہ جائیدادیں خریدی ہوئی ہیں اورباہر زندگی بسرکرنے پربھاری اخراجات کررہے ہیںجبکہ ان کے یوٹیلیٹی بلوں کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کی تعلیم ،بیرون ملک سفر کرنے اور ان کے نام پر بینکوں میں کھلے گئے اکائونٹس میں بھاری رقوم رکھی ہوئی ہے اورکچھ نے توبے نامی کمپنیاں بھی بنائی ہوئی ہیں جبکہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے بھی تمام پہلوئوں کو بھی دیکھاجارہاہے تاکہ ان کے خلاف منی لانڈرنگ کے تحت کارروائی کا آغازکیاجاسکے۔