اقبال اعوان :
کراچی میں واقع گائے، بھینسوں کے باڑوں میں جانوروں کے زہر خورانی کے باعث مرنے کے واقعات بڑھنے لگے ہیں۔ باڑوں پر سپلائی کیے جانے والے مضرِ صحت چارے، ونڈا، دانے، بھوسی ٹکڑوں سے آئے روز جانور موت کا شکار ہورہے ہیں۔ ان میں بعض مردہ جانوروں کا گوشت شہر میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔
دو ہفتے کے دوران لانڈھی بھینس کالونی میں 35 بھینسیں اور 5 کٹے مر چکے ہیں۔ ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کے شاکر گجر کا کہنا ہے کہ پنجاب میں سپلائی کرنے والے ڈیلرز لائسنس یافتہ ہوتے ہیں اور احتیاطی تدابیر کرتے ہیں۔ جبکہ کراچی میں زیادہ منافع کمانے کے لالچ رکھنے والے لوگ سستے چارے، زہرآلودہ دانہ اور بھوسی ٹکڑے سپلائی کر دیتے ہیں۔ سندھ حکومت سے مطالبہ ہے کہ چارہ، دانہ اور دیگر اشیا کے ڈیلرز لائسنس یافتہ کیے جائیں۔
واضح رہے کہ شہر میں تازہ دودھ کے لیے بھینس کالونیوں اور باڑوں پر 20 لاکھ سے زائد گائیں بھینسیں موجود ہیں۔ ان جانوروں کے لیے تازہ، سوکھا چارہ، بھوسی ٹکڑے، بھوسہ دانہ اور دیگر اشیا آتی رہتی ہیں۔ اسی طرح ونڈا (دودھ والے جانور کی مکس خوراک) باڑے والے خود بھی تیار کرتے ہیں اور تیار شدہ ملتا بھی ہے۔ لانڈھی بھینس کالونی میں کراچی بھر میں سب سے زیادہ جانوروں کی تعداد موجود ہے۔ لگ بھگ 5 لاکھ گائیں، بھینسیں موجود ہیں اور آئے روز زہرخورانی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ پندرہ روز قبل ونڈا سپلائی کرنے والوں نے باڑے پر سپلائی کی تھی جو زہریلا تھا اور باڑے کی بھینسیں اور کٹے مرنے لگے۔
جب ونڈا کا ٹیسٹ کرایا گیا تو اس میں زہریلا پن ملا۔ باڑے والوں نے سکھن تھانے میں مقدمہ کرا دیا۔ پولیس نے دو افراد گرفتار کر لیے۔ اب تک زہریلا پن والے ونڈا سے اس باڑے کی 35 بھینسیں 5 کٹے مر چکے ہیں۔ اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ جہاں شہر میں انسانوں کو مضر صحت، غیر معیاری اور سستی اشیا کھلائی جارہی ہیں اور کنٹرول ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح جانوروں کو بھی منافع خور نقصان دے رہے ہیں۔
لانڈھی بھینس کالونی میں یومیہ درجنوں جانور مرتے ہیں۔ جن میں بھینس گائے، بکریاں، بھیڑیں شامل ہیں۔ ایک جانب مرنے والے جانور جو زیادہ تر رات کو باڑوں میں مر جاتے ہیں ان کو بھوسہ منڈی یا اطراف میں پھینک دیا جاتا ہے۔ چند بے ضمیر اور منافع خور ان جانوروں کی کھال اتار کر فروخت کرتے ہیں، وہیں جو جانور تازہ مرا ہے تو اس کا گوشت شہر میں بھیج دیا جاتا ہے جو چھپرا ہوٹلوں، فیکٹری ایریا، ہائی ویز کی ہوٹلوں پر پکا کر کھلا دیا جاتا ہے۔جبکہ بعض لوگ ان جانوروں کے گوشت کو پانی میں ڈال کر کڑھائو میں گرم کر کے گھی نکالتے ہیں۔ ان جانوروں میں زہرخورانی کے شکار جانور بھی شامل ہوتے ہیں۔ جن کے کھانے سے شہری بڑی بڑی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔
بھینس کالونی کے بارے والے حسین بخش کا کہنا ہے کہ دودھ والی بھینسوں، گائے کو بھوسی ٹکڑے لازمی خوراک میں دیے جاتے ہیں۔ شہر میں کباڑ اکٹھے کرنے والے ٹھیلے والے یا دکاندار بھوسی ٹکڑے خرید کر جمع کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ چوہے مار دوائی یا پائوڈر کا ڈبہ، مچھر مکھی مار یا کیڑوں کو مارنے والی دوائی، فنائل یا سرف کے خالی ڈبے بوتلیں ساتھ شامل کر دیتے ہیں۔ اس طرح بھوسی ٹکڑے میں زہریلاپن آجاتا ہے اور جانور اس کو کھانے سے زیرخورانی کا شکار ہوتے ہیں۔
باڑے والے اکبر علی کا کہنا تھا کہ جو چارہ ہرا یا سوکھا سندھ، بلوچستان یا کراچی کے علاقوں ملیر، ملیر ندی، گڈاپ سے آتا ہے اس کو باڑوں پر لایا جاتا ہے، یا دکاندار خرید کر رکھتے ہیں اور سپلائی کرتے ہیں اس کو کوئی چیک نہیں کرتا ہے۔ اسی طرح تیار ونڈا منگوا کر جانوروں کے آگے ڈالا جاتا ہے۔ دانہ، اور ونڈے میں شامل اشیا جہاں خراب حالت میں ہوں۔ مضر صحت زیادہ تر سستی، خراب، شدہ اشیا شامل ہوتی ہیں۔ شہر میں کوئی باڑے والا چیک نہیں کرتا ہے۔ اب 6 لاکھ کی بھینسیں زہرخوانی کا شکار ہوں اگر پتا چل جائے تو ذبح کر کے کچرے میں ڈالتے ہیں اور رات میں مر جائے تو اس کو ہٹا دیتے ہیں اس طرح دو ڈھائی لاکھ کی اچھی گائے شکار ہو جاتی ہے۔باڑوں پر نقصان زیادہ ہورہا ہے۔
کراچی ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کے صدر شاکر گجر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ، ان کا حکومت سندھ سے مطالبہ ہے کہ کراچی میں باڑوں پر دانہ، بھوسہ، بھوسی ٹکڑے، چارے سپلائی کرنے والوں کے لائسنس بنائے جائیں اور وہ چیک شدہ اشیا باڑوں پر دیں اور نقصان کی صورت میں وہ ذمہ دار ہوں گے۔ کراچی میں مردہ جانوروں کا گوشت بھی کھلانے کا سلسلہ نیا نہیں۔ بڑے بڑے بے ضمیر لوگ پڑے ہیں۔