عمران خان:
ٹمبر مارکیٹ میں سرگرم حوالہ ہنڈی کا نیٹ ورک پکڑا گیا۔ جو نہ صرف کراچی میں لکڑی کے بڑے تاجروں اور فرنیچر کمپنیوں کو حوالہ ہنڈی کی خدمات فراہم کرتا رہا۔ بلکہ ملک کے دیگر شہروں میں قائم لکڑی مارکیٹوں کے تاجروں کیلئے بھی بیرون ملک غیر قانونی طریقے سے ادائیگیوں کا بندوبست کرتا رہا ہے۔ ایف آئی اے نے گرفتار ملزمان سے تفتیش کے بعد تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا ہے۔
ملزمان کے رابطے متحدہ عرب امارات، چین، امریکہ، کینیڈا، جرمنی اور یورپ کے دیگر ممالک میں موجود حوالہ ایجنٹوں سے ہیں۔ لکڑی کے کئی بڑے تاجر اپنی کھیپوں کی اقسام، مقدار اور مالیت میں ردوبدل کرکے کسٹمز کلیئرنس حاصل کرتے ہیں اور اس طرح بھاری ڈیوٹی اور ٹیکس جعلسازی سے چوری کرلئے جاتے ہیں۔ انڈر انوائسنگ اور مس ڈکلریشن کی وارداتوں کے بعد بیرون ملک ادائیگیوں کیلئے حوالہ ایجنٹوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے گزشتہ ہفتے ایک خفیہ اطلاع پر انکوائری شروع کی گئی۔ جس کے بعد ٹمبر مارکیٹ کے قریب منہاس نامی حوالہ ایجنٹ کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا جو لکڑی کی درآمد کی آڑ میں اپنا دھندا چلا رہا تھا۔ اس آفس سے فرخ اور نفیس نامی افراد کو حراست میں لیا گیا۔ جن کے پاس سے اب تک اربوں روپے کے مساوی زر مبادلہ بیرون ملک منتقل کرنے کے شواہد مل گئے ہیں۔ ملزمان سے تفتیش میں معلوم ہوا کہ ٹمبر مارکیٹ کے تاجروں کو ان کی جانب سے بیرون ملک سے منگوائی گئی لکڑی کی کھیپوں کی ادائیگیوں کیلئے حوالہ ہنڈی کا غیر قانونی چینل جنید نامی ایجنٹ چلا رہا ہے۔
تاجروں کے جنید سے رابطے منہاس کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ ایف آئی اے نے اس معاملے پر مقدمہ درج کرکے مزید تفتیش شروع کردی ہے۔ جبکہ ملزمان سے ملنے والے موبائل فونز اور لیپ ٹاپ کی فارنسک چھان بین کی جا رہی ہے۔ اسی دوران ٹمبر مارکیٹ کے کئی تاجر اور فرنیچرکارخانوں کے متعدد مالکان کے کوائف بھی حاصل کرلئے گئے ہیں۔ جو گزشتہ طویل عرصہ سے ان ایجنٹوں کے ذریعے حوالہ ہنڈی کروا رہے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں ملک میں امریکا، آسٹریا، سوئیڈن، جرمنی، فرانس، کینیڈا و دیگر یورپی ممالک سے مختلف اقسام کی لکڑی کے ماہانہ اوسطاً 1500 کنٹینرز کی درآمدات ہوتی رہی ہے۔ حکومت کو یہ شعبہ ڈیوٹی و ٹیکسز کی مد میں سالانہ 700 کروڑ روپے کی ادائیگیاں کرتا رہا ہے۔
پاکستان میں صرف امریکا سے سالانہ 54 ملین ڈالر یعنی 15 ارب روپے سے زائد مالیت کی لکڑی درآمد کی جاتی رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی فرنیچر مارکیٹ ملک بھر میں پندرہ ہزار سے زائد چھوٹے اور درمیانے یونٹس پر مشتمل ہے۔ جس کی مجموعی مالیت تقریباً تین ارب ڈالر سے زائد ہے۔ ان میں سے بیشتر یونٹس کیلئے کراچی کی مرکزی ٹمبر مارکیٹ سے لکڑیاں سپلائی کی جاتی ہیں اور یہ تاجر ہی کمپنیوں کیلئے آرڈر پر بھی لکڑیاں درآمد کرتے ہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی عرصہ میں یعنی یکم جنوری 2023ء سے لیکر 31 مارچ 2023ء تک حکومت نے ٹمبر مارکیٹوں کے تاجروں اور فرنیچر کمپنیوں کو بڑا ریلیف دیتے ہوئے لکڑی کی درآمد پر عائد تمام شرائط ختم کرنے کا مراسلہ جاری کیا۔ جس کے بعد کئی ماہ تک اربوں روپے مالیت کی لکڑی آزادانہ طور پر بغیر کسی شرائط کے درآمد کی جاتی رہی۔ اس دوران بھی مس ڈکلریشن اور انوائسنگ کرکے کروڑوں روپے کی ٹیکس چوریاں کی گئیں اور اسی نیٹ ورک کے ذریعے حوالہ ہنڈی سے زر مبادلہ بیرون ملک ادائیگیوں کیلئے منتقل کیا جاتا رہا۔
ذرائع کے بقول چونکہ ان چند ماہ میں ہی حکومت میں شامل بعض عناصر نے بھاری کمیشن کے عوض ٹمبر مارکیٹوں کے تاجروں کو ریلیف دیا۔ اس کے نتیجے میں وافر مقدار میں لکڑی درآمد کرکے مستقبل قریب میں مہنگی فرروخت کرنے کیلئے گودام بھر لئے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بغیر شرائط کے لکڑی درآمد کرنے کا وقت گزرنے کے بعد اچانک اس کی درآمد میں کمی آنا شرو ع ہوگئی۔
اعدادوشمار کے مطابق مئی 2022ء کے دوران 1.85 ارب روپے کی لکڑی اور کارک درآمد کی گئی۔ جبکہ مئی 2023ء کے دوران درآمدات کا حجم 1.12 ارب روپے رہا۔ اس طرح لکڑی اور کارک کی درآمد میں سالانہ بنیادوں پر 39.4 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول ٹمبر مارکیٹ کے ٹیکس چور تاجروں کی جعلسازی اور حوالہ ہنڈی کا خمیازہ اس سیکٹر سے منسلک چھوٹے کارخانہ دار اور کاریگروں کے علاوہ فرنیچر خریدنے والے شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ٹیکس چوری سے فائدہ درآمد کنندہ ہی اٹھاتے ہیں۔
چھوٹے کارخانوں اور کاریگروں کو خام مال مارکیٹ ریٹ کے مطابق مہنگا ہی ملتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے لکڑی اور فرنیچر کی قیمتوں میں 150 فیصد سے 200 فیصد اضافہ ہوا۔ جبکہ حکومتوں کی جانب سے ان اشیا پر اضافی ٹیکس بھی لگائے گئے۔ جس پر لکڑی کے تاجروں نے ہر بار احتجاج کرکے اپنے لئے ریلیف لینے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ہی کسٹمز کے کرپٹ افسران کی ملی بھگت سے مس ڈکلریشن اور انڈر انوائسنگ کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا۔