عدالتِ عالیہ ای چالان غیر قانونی قرار دے چکی ہے، فائل فوٹو
عدالتِ عالیہ ای چالان غیر قانونی قرار دے چکی ہے، فائل فوٹو

لاہور ٹریفک پولیس نے ہزاروں شہری بلیک لسٹ کردیے

نواز طاہر:
لاہور پولیس نے ای چالان جمع نہ کروانے والوں کو پولیس کی سروسز سے بلیک لسٹ کردیا ہے۔ حالاں کہ عدالت ِ عالیہ ای چالان پہلے ہی غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ نو منتخب مریم نواز حکومت کی جانب سے تاحال ای چالان کے بارے میں کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی اور نئے چالان بھی نہیں ہو رہے۔ پولیس کے اس اقدام سے صوبے بھر میں ہزاروں افراد متاثر ہوئے اور ان کی گاڑیاں پنجاب کی حدود میں چلنا بند ہوسکتی ہیں۔

چیف ٹریفک آفیسر لاہور عمارہ اطہر کی طرف سے جاری کیے جانے والے سرکاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ لاہور پولیس نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ہونے والے ای چالان نادہندگان کے خلاف کاروائی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ٹریفک پولیس اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ای چالان نادہندگان کو چالان جمع نہ کروانے تک پولیس سروسز میسر نہیں ہوں گی۔ اس تناظر میں ٹریفک پولیس کی جانب سے سیف سٹی پنجاب، پولیس خدمت مراکز اور ڈرائیونگ لائسنس ایشوئنس مینجمنٹ سسٹم کو انٹیگریڈ کردیا گیا ہے۔

سی ٹی او عمارہ اطہر نے کہا ہے کہ اب شہریوں کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی سوچ سمجھ کر کرنا ہوگی۔ واضح رہے کہ یہ اعلان ابتدائی طور پر ٹریفک پولیس لاہور کی جانب سے کیا گیا ہے۔ تاہم پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کا اطلاق پورے صوبے میں ہوگا۔ پولیس ذرائع کے مطابق ای چالان کے نادہندگان کو سرکاری پالیسی کے تحت پہلے سے ہونے والا چالان جمع کروانے کی صورت میں ہی کریکٹر سرٹیفکیٹ اور ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ جاری کیا جائے گا۔

تاہم پولیس کے ایک افسر نے بتایا کہ ایسی پالیسی پر عمل درآمد ہونے کی صورت میں مقدمات کا اندراج بھی عملی طور پر اس ای چلان سے غیر سرکاری طور پر منسلک کردیا جاسکتا ہے۔ ماسوائے سنگین ترین حالت اور مقدمات کے یہ کلیہ چلے گا۔ لیکن لاہور ٹریفک پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ٹریفک چالان کی اہمیت ہے اور اس کی عدم ادائیگی کی صورت میں وصولی کے مختلف طریقہ ہائے کار موجود ہیں۔ جدید دور میں ایسے قانون شکنوں کو دستیاب ڈیٹا اور ریکارڈ سے قانون کے تابع لایا جاسکتا ہے اور قومی خزانے کیلئے جرمانہ وصول کیا جاسکتا ہے۔

ترجمان نے اس فیصلے کا اطلاق مقدمات کے اندراج سے منسلک کرنے کے بارے میں نہیں بتایا، صرف سروسز کی فراہمی سے مشروط کیا ہے۔ دوسرے شہروں سے لاہور آنے یا دوسرے صوبوں سے لاہور میں چالان ہونے پر ادا نہ کرنے والے گاڑیوں پر اس فیصلے کے اطلاق سے متعلق ترجمان کہنا ہے کہ، اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چونکہ پولیس کی خدمات کے مراکز پورے صوبے میں قائم ہیں، اس کے علاوہ جب دوسرے صوبے کی لاہور میں چالان نادہندہ گاڑی داخل ہوگی تو وہ داخلی راستے پر ہی چیک ہوجائے گی اور چالان جمع کرانے کے بعدہی داخل ہو سکے گی۔

یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے جون دو ہزار بائیس میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر ای چالان کرنے والے ادارے ’’سیف سٹی اتھارٹی‘‘ کا یہ اقدام غیر قانونی قرار دیا تھا اور اپنے فیصلے میں ای چالان کے نظام میں قانونی خلا، نقائص اور قانونی حیثیت کے ساتھ ساتھ ابہام کی نشاندہی بھی کی تھی۔ واضح رہے کہ پولیس کے پاس ای چالان کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، تاہم اس کا اندازہ ہزاروں میں لگایا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ سیف سٹی اتھارٹی نے ای چالان کا ابھی کوئی پلان نہیں بنایا نہ ہی عدالتی فیصلے کے بعد سے کوئی چالان کیا اور نہ ہی ایسے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ای چالان کے حوالے سے اداروں میں معاملات زیر بحث رہے ہیں اور مختلف امور پر غور کیا گیا ہے۔

اس کی تصدیق کرتے ہوئے سیف سٹی اتھارٹی کے ترجمان نے بتایا کہ سیف سٹی اتھارٹی لاہور میں ڈیٹل طریقے سے ٹریفک کے معاملات دیکھتی ہے اور خلاف ورزی بھی دیکھتی ہے، مگر کسی کا ای چالان نہیں کیا گیا۔ جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک سیف سٹی اتھارٹی کے شہر کی سڑکوں پر لگے کیمروں کی خرابی ہی دور نہیں کی جاسکی۔ واضح رہے کہ یہ کیمرے پنجاب میں شہبازشریف حکومت نے لگوائے تھے اور بعد میں احتجاجی مظاہروں اور دیگر وجوہ کی بنا پر زیادہ تر خراب ہوگئے تھے اور پوری طرح فعال نہیں۔ اس کی تصدیق کرتے ہوئے سیف سٹی اتھارٹی کے ترجمان نے بتایا کہ کیمروں کی بحالی کا عمل تیزی سے جاری ہے۔

دریں اثنا معلوم ہوا ہے کہ ای چالان کو عدالت کی طرف سے غیرقانونی قراردیے جانے کے بعد دوبارہ نافذ کرنے اور عدالت کی طرف سے کی جانے والی نشاندہی اور خامیاں و نقائص دور کرکے نافذ کرنے کیلئے وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کو بریفنگ دی جانا باقی ہے۔ لیکن اس بریفنگ سے پہلے ہی اس کے نفاذ کا اعلان کردیا گیا ہے، جبکہ اس کی حتمی شکل پانا باقی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لاہور ٹریفک پولیس سے شاید پریس نوٹ جاری کرنے میں جلدی ہوگئی ہے، جبکہ عملی طور پر اس کا فوری نفاذ ممکن نہیں۔