رشتے داروں کو وزارتیں دینے کی یقین دہانی کرانے والے فیصلے پر حیران ہیں، فائل فوٹو
 رشتے داروں کو وزارتیں دینے کی یقین دہانی کرانے والے فیصلے پر حیران ہیں، فائل فوٹو

خیبرپختونخوا میں پرانے چہرے وزارتوں سے باہر

محمد قاسم:
پی ٹی آئی نے خیبرپختونخوا میں پرانے چہروں اور اہم رہنمائوں کو وزارتوں سے آئوٹ کر دیا۔ صرف 2 پرانے رہنما سابق مشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف اور سابق وزیر شکیل خان کو دوبارہ کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔ تاہم دیگر تمام نئے چہرے ہیں۔

ذرائع کے بقول پی ٹی آئی کے پوسٹر بوائے سابق وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کی جگہ کراچی سے تعلق رکھنے والے مزمل اسلم کو مشیر خزانہ تعینات کرنے کا امکان ہے۔ ان کو مشیر بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ دیگر وزرا میں ارشد ایوب (مانسہرہ)، شکیل احمد (مالاکنڈ)، فضل کلیم (سوات)، عدنان قادری (خیبر)، عاقب اللہ (صوابی)، محمد سجاد (کرک)، مینا خان (پشاور)، فضل شکور (چارسدہ)، نذیر احمد عباسی (ایبٹ آباد)، پختون یار (بنوں)، آفتاب احمد آفریدی (کوہاٹ)، خلیق الرحمان (نوشہرہ)، سید قاسم شاہ (پشاور)، فیصل خان ترکی (صوابی)، محمد ظاہر شاہ طورو (مردان) شامل ہیں۔ مشیروں میں فخر جہاں (بونیر)، مزمل اسلم (کراچی)، محمد علی سیف (صوابی) اور زاہد چنہ زیب (ہزارہ) کو لیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق عمران خان کو دی گئی لسٹ میں سابق وزرا کی اکثریت تھی اور دو دو بار وزیر رہنے والوں کو ترجیح دی گئی تھی۔ لیکن عمران خان نے پرانے کھلاڑیوں کی جگہ نئے چہروں کو وزارت دینے کی ہدایت کی اور ساتھ ہی نئے نام بھی دیے۔ جن میں خاص کر کراچی سے تعلق رکھنے والے مزمل اسلم شامل ہیں تاکہ صوبے کی معیشت بہتر بنائی جا سکے۔

دوسری جانب یہ پیغام بھی دینا تھا کہ عمران خان کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ جو لوگ عمران خان بننے کی کوشش کر رہے ہیں اور راتوں رات وزارتیں تقسیم کر رہے ہیں۔ وہ اپنی اوقات میں رہیں۔ کیونکہ ذرائع کے بقول بعض لیڈروں نے اپنے رشتے داروں کو اہم وزارتیں دینے کیلئے اتفاق کر لیا تھا۔ تاہم ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کیلئے مشکل وقت میں کام کرنے والے اراکین اس لسٹ پر حیران ہیں کہ ان کو کیوں سائڈ پر کر دیا گیا اور وہ حلقے کے عوام کا کام کیسے کریں گے۔ مشتاق احمد غنی، ڈاکٹر امجد اکبر ایوب، تیمور سلیم جھگڑا، کامران بنگش، شوکت یوسفزئیا ور دیر لوئر، سوات اور مردان کے وہ ارکان جنہوں نے پولیس کا سامنا کیا۔ تاہم وہ سائیڈ لائن کر دیے گئے۔

ان کا خیال ہے کہ اس وقت صوبے کو ایک ناتجربہ کار ٹیم کے حوالے کرنا عوام کے ساتھ نیا تجربہ کرنا ہے۔ دوسری جانب کابینہ میں شامل ہونے سے رہ جانے والے ایک رکن اسمبلی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ووٹ عمران خان کے نام پر ملا ہے اور ان کا فیصلہ ماننا پڑے گا۔ کیونکہ عمران خان کو چھوڑنے والے کئی اہم رہنما انتخابات ہار گئے اور ان کو لوگوں نے ووٹ نہیں دیا۔ جبکہ عمران خان کی پارٹی میں عام کارکن کو بغیر پارٹی نشان کے جتوایا۔ ان رہنما کے بقول تمام اراکین اسمبلی کو معلوم ہے کہ عمران خان کے فیصلے سے اختلاف کا مطلب پارٹی سے باہر جانا ہے۔

دوسری جانب اپوزیشن کو مخصوص نشستیں ملنے کے بعد ان کی تعداد 51 ہو گئی ہے اور اگر عدالتوں میں سنی اتحاد کونسل کے حق میں فیصلہ نہیں ہوتا تو خیبرپختون میں کسی بھی وقت تحریک عدم اعتماد آسکتی ہے۔ تاہم یہ تحریک عدم اعتماد سینیٹ کے انتخابات کے بعد ممکن ہے۔ اور سینیٹ کیلئے عمران خان کس کس کو اس صوبے سے ٹکٹ جاری کرتے ہیں۔ اس کا بھی پتہ چل جائے گا۔ لیکن یہ بات واضح ہو گئی کہ عمران خان کا فیصلہ ہی حتمی ہوگا اور برائے نام چیئرمین اور جنرل سیکریٹری کی پارٹی کے اندر کوئی حیثیت نہیں۔