عمران خان :
بندرگاہوں اور ایئرپورٹس پر اوورسیز پاکستانیوں کے نام پر منگوائے گئے لگژری سامان میں اربوں روپے کی ٹیکس چوری کا انکشاف ہوا ہے۔ جس پر کسٹمز حکام نے تحقیقات شروع کردی ہیں۔ ابتدائی طور پر بیرون ملک مقیم شہریوں کے نام پر بیگیج اسکیم میں آنے والے سامان کی اسکروٹنی اور مانیٹرنگ سخت کردی گئی ہے۔ جس کے نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔ ایک جانب ایجنٹوں نے نقصان کے رسک پر بکنگ کم کردی تو دوسری طرف بیگیج کے سامان سے حاصل ہونے والے ماہانہ محصولات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق عام طور پر بیرون ملک سے کمرشل بنیادوں پر کمپنیوں اور تاجروں کی جانب سے منگوایا جانے والا سامان اپریزمنٹ کلکٹریٹس کے ذریعے کے پی ٹی اور پورٹ قاسم کے ٹرمینلز سے کلیئر کیا جاتا ہے۔ تاہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے نام پر پرسنل بیگیج یعنی گھریلو استعمال کیلئے بھجوایا گیا سامان کسٹمز پریونٹو انفورسمنٹ کلکٹریٹ کے تحت کلیئر کیا جاتا ہے۔ اس پر ڈیوٹی اور ٹیکس کی چھوٹ بھی ہوتی ہے۔
اسی اسکیم کو استعمال کرتے ہوئے کمرشل اور لگژری سامان کے اسمگلرز نے ایجنٹوں کے ذریعے اس راستے کو فرنیچر، کراکری، کاسمیٹکس، گارمنٹس، جوتوں، شو پیس، الیکٹرانک سامان، لیپ ٹاپ، موبائل فونز، گھڑیوں اور دیگر لگژری آئٹمز کی اسمگلنگ کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا۔ تاکہ یہ پرتعیش اور مہنگا غیر ملکی سامان کم سے کم ٹیکس اور ڈیوٹی پر منگوا کر کمرشل بنیادوں پر فروخت کرکے زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جاسکے۔
ذرائع کے بقول یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ اس میں کسٹمز پریونٹو انفورسمنٹ کے وہ افسران اور اہلکار ملوث ہیں جو طویل عرصہ سے ان مقامات پر پوسٹنگ حاصل کرکے سیٹنگ بنا کر بیٹھے ہیں۔ ان کے بیگیج کے کلیئرنگ ایجنٹوں سے مضبوط تعلقات ہیں اور ان میں کئی کسٹمز کے اپنے افسران بھی شامل ہیں۔ یہ سامان اوورسیز شہریوں کے پاسپورٹ اور کوائف استعمال کرکے منگوانے کے بعد پوش علاقوں کے سپر اسٹوروں پر سپلائی کیا جاتا ہے۔
ذرائع کے بقول اس معاملے میں اس وقت پیش رفت سامنے آئی جب حالیہ عرصہ میں ایک پالیسی کی تبدیلی کے تحت کسٹمز انفورسمنٹ پریونٹو کلکٹریٹ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور عمر شفیق کو کلکٹریٹ پورٹس اینڈ ٹرمینل تعینات کیا گیا۔ جن کے ماتحت بیگیج اسکیم کلیئر ہوتی ہے۔ کلکٹر کی جانب سے ایسی ہی اطلاعات ملنے پر کچھ اہم اقدامات کیے گئے۔ جن کے مثبت نتائج بھی سامنے آنے لگے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ برسوں میں ملی بھگت سے ایئرپورٹ اور ٹرمینلز سے ماہانہ 200 سے ڈھائی سو کنٹینرز کے ذریعے ’’بیگیج اسمگلنگ‘‘ کی جا رہی ہے۔ جن میں ممنوعہ ادویات اور حساس آلات کے علاوہ ذاتی استعمال کے اسلحہ کے پرزے تک اسمگل کرکے لائے جا رہے ہیں۔ اس میں ملوث ایجنٹوں کے گروپ بنیادی طور پر کلیئرنگ ایجنٹوں کا کام کرتے رہے ہیں۔ ان کے نیٹ ورک میں کئی ناموں سے کمپنیاں رجسٹرڈ کرائی گئی ہیں۔ جن میں سے بعض کا بزنس ٹائپ امپورٹ کا ہے۔ اس نیٹ ورک کے تحت کئی ایجنٹ سعودیہ، متحدہ عرب امارات کی کچھ ریاستوں کے علاوہ تھائی لینڈ، ملائیشیا اور سنگاپور میں موجود ہیں۔ یہ ایجنٹ وہاں موجود پاکستانیوں کی جانب سے وطن بھیجا جانے والا سامان بک کرتے رہے ہیں۔
ذرائع کے بقول بعض ایجنٹوں نے اپنے دفاتر قائم کر رکھے ہیں اور کچھ چلتے پھرتے موبائل فون پر بکنگ کرتے ہیں۔ ان پاکستانیوں کے سامان کی آڑ میں ممنوعہ اشیا لائی جاتی ہیں۔ اس نیٹ ورک سے فائدہ اٹھانے والوں کی اکثریت کا تعلق ایسے ڈیلرز اور دکانداروں سے ہے۔ جو بیرون ملک سے الیکٹرونکس آئٹم، موبائل فونز، لیپ ٹاپ، آئی پیڈ، کیمرے، گھڑیاں اور ممنوعہ ادویات پاکستان لاکر اپنی دکانوں پر فروخت کرتے اور مارکیٹوں میں سپلائی کرتے ہیں۔ ڈیلرز یہ سامان ایئر لائنز کے ذریعے ایئرپورٹ سے لاتے ہیں تو اس پر بہت زیادہ ٹیکس اور ڈیوٹی ادا کرنی پڑتی ہے۔ جس سے سامان کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ جبکہ ایئرپورٹ سے کھیپ کے ذریعے سامان لانے کیلئے بہت زیادہ تگ و دو بھی کرنی پڑتی ہے۔ انتہائی مضبوط سیٹنگ رکھنے والے اسمگلرز ہی ایئرپورٹ سے کھیپ لانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ’’بیگیج اسمگلنگ‘‘ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کیونکہ اس قسم کی اسمگلنگ میں ملوث کمپنیوں کے ایجنٹ سامان بک کرانے والوں کے ساتھ ’’ڈن‘‘ (Done) کی بنیاد پر کام کرتے ہیں اور سامان پاکستان میں ان کے گھروں کی دہلیز تک پہنچانے کی ذمے داری لیتے ہیں۔ ذرائع کے بقول بیرون ملک جانے والے افراد جب وہاں سامان کی خریداری مکمل کرلیتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ یہ سامان لانے کے بجائے بیرون ملک میں ہی اپنے ’’بیگ‘‘ ایجنٹوں کو دے دیتے ہیں اور گھر تک سامان پہنچانے کیلئے طے کردہ رقم میں سے نصف پہلے ہی ادا کردی جاتی ہے۔
ایجنٹوں کے پاس جب کسی ایک شہر کیلئے ایک سو تا پانچ سو بیگیج کی بکنگ مکمل ہو جاتی ہے تو وہ یہ سامان کنٹینرز میں بھرکر عرب امارات، ملائیشیا، چین، تھائی لینڈ اور سنگارپور وغیرہ کی بندرگاہوں سے کراچی منتقل کردیتے ہیں۔ یہاں ان کنٹینرز کو کلیئر کرانے کیلئے ایجنٹوں کے ملوث گروپ کے ذریعے چلائی جانے والی کمپنیوں کے توسط سے گڈز ڈکلریشن داخل کی جاتی ہے۔ جس میں یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ سامان ایک ہی کمپنی کی جانب سے بیرون ملک سے منگوایا گیا ہے۔
بعد ازاں کسٹمز پریونٹو انفورسمنٹ کے بیگیج سیکشن کے متعلقہ افسران کو بھاری رشوت دیکر سرسری جانچ پڑتال کراکے مذکورہ کنٹینرز کو کلیئر کرکے گوادموں میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ جہاں سے ہر شخص کے بیگ کو علیحدہ کرکے اس کے گھر تک پہنچانے کیلئے مقامی سطح پر سرگرم ایجنٹوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ جو یہ بیگ گھروں تک پہنچا کر مزید نصف قم وصول کرلیتے ہیں۔
ذرائع کے بقول اسمگلنگ کے اس دھندے سے ہر ماہ قومی خزانے کو کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کسٹم قوانین کے تحت کوئی بھی تاجر یا ڈیلر اپنی کمپنی کے تحت صرف اپنا ہی سامان منگوا سکتا ہے۔ جبکہ ان کنٹینرز کے اندر موجود بیگوں پر سامان منگوانے والے ہر شخص کی علیحدہ شناخت یعنی نام اور ایڈریس وغیرہ بیگ میں موجود سامان کی فہرست کے ساتھ چسپاں ہوتے ہیں۔ جو مکمل طور پر اسمگلنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ تاہم اسمگلرز کے مذکورہ دو گروپوں سے ملنے والی بھاری رشوت کی وجہ سے کرپٹ کسٹم افسران ان کنٹینرز کو کلیئر کردیے ہیں۔