ملزمان کے بینک ڈیٹا سے ایک ارب سے زائد کی ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ جمع کرلیا گیا، فائل فوٹو
 ملزمان کے بینک ڈیٹا سے ایک ارب سے زائد کی ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ جمع کرلیا گیا، فائل فوٹو

اربوں مالیت کا کالا دھن سفید کرنے والا گروہ بے نقاب

عمران خان :
پرائز بانڈز کے ذریعے اربوں روپے کا کالا دھن، سفید کرنے والا عرصہ سے سرگرم نیٹ ورک بے نقاب ہوگیا ہے۔ ایف آئی اے کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ ان ملزمان سے فائدہ اٹھانے والوں میں سیاست دانوں کے فرنٹ مین، سرکاری اداروں کے افسران اور اولڈ سٹی ایریا، جوڑیا بازار، بولٹن مارکیٹ وغیرہ کے بڑے تاجر شامل ہیں۔ ایف آئی اے نے ابتدائی تحقیقات میں ملزمان کے بینک ریکارڈ سے ایک ارب روپے سے زائد کی ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ جمع کرلیا۔ جس کے مطابق ملزمان نے صرف تین برسوں میں اپنے بینک اکائونٹس میں اتنی بھاری مالیت کے پرائز بانڈز جمع کر کے کیش کروائے۔

موصول دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی نے گزشتہ روز پرائز بانڈز کا غیر قانونی کاروبار کرنے والے نیٹ ورک کے خلاف انکوائری میں ثبوت اور شواہد سامنے آنے پر منسوخ شدہ پرائز بانڈز کے کروڑوں روپے وصول کرنے والے ملزم کو گرفتار کرلیا۔

محمد توصیف نامی ملزم نے جعلی کاروباری ایڈریس والے اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے وصول کئے۔ ایف آئی اے نے بتایا کہ ملزم نے بڑی مالیت کے منسوخ پرائز بانڈز کے عوض کروڑوں روپے لئے۔ ملزم نے مختلف بینک اکاؤنٹس بطور کراکری اور چائلڈ وئیر شاپ ڈیلرکے کھلوائے۔ تحقیقات پر ملزم کے تمام کاروباری ایڈریس پر کسی کاروبارکا کوئی ثبوت نہ ملا۔ ملزم کیخلاف آمدنی کے ذرائع جعلی ہو نے پر انکوائری نمبر 40/2023 کے افسر ذاکر حسین نے منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت مقدمہ الزام نمبر 03/2024 درج کرکے مزید تفتیش شروع کردی ہے۔

دستاویزات کے مطابق ملزم کے حوالے سے دستیاب ریکارڈ سے معلوم ہوا ہے کہ وہ مدینہ صرافہ شاپ، صرافہ بازار میں 18ہزار روپے ماہوار پر ملازمت کرتا رہا۔ تاہم اس دوران اس نے کئی رجسٹرڈ کمپنیوں کے بینک اکائونٹس، مختلف نجی بینکوں کی اولڈ سٹی ایریا اور جوڑیا بازار اور ڈینسو ہال کی برانچوں کے اکائونٹس استعمال کئے۔ ملزم سے تفتیش میں ایک دوسرے ملزم اصغر میاں کا ڈیٹا ملا جس کے بینک اکائونٹس میں بھی کروڑوں روپے مالیت کے پرائز بانڈز کی ٹرانزیکشنز کی گئی۔

ملزمان کی وارداتوں کے حوالے سے معلوم ہوا کہ ملزمان مختلف سرکاری افسران، تاجروں اور سیاسی شخصیات کے فرنٹ مینوں سے 40، 25 اور 15 ہزار مالیت کے پرائز بانڈز ادائیگیوں کے عوض وصول کرکے انہیں اکائونٹس میں جمع کروا کر کیش لیا کرتے تھے۔ اس میں انہیں نجی بینکوں کے کرپٹ افسران کی معاونت حاصل رہی۔ اسی دوران انہوں نے اربوں روپے کے ایسے ہی پرائز بانڈز شہریوں سے خرید کر انہیں فائدہ اٹھانے والے افراد کو بیچے تاکہ ان کے پاس کالے دھن کو محفوظ رکھا جاسکے۔

ایف آئی اے ذرائع کے بقول اس نیٹ ورک کے حوالے سے بعض معلومات اس وقت بھی سامنے آئیں، جب چند ہفتے قبل ایف آئی اے کی ایک کارروائی میں بولٹن مارکیٹ میں چھاپہ مارکارروائی کی، جس کے دوران غیر ملکی کرنسی کی غیرقانونی خرید و فرخت میں ملوث 2 ملزمان احمد رضا اور فیضان رضا کو گرفتارکیا گیا۔ ملزمان پرائز بانڈ کے کاروبار کی آڑ میں غیر ملکی کرنسی کی خرید وفرخت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی منظوری کے بغیر غیر قانونی کرنسی ایکسچینج میں ملوث تھے۔

ملزمان کے قبضے سے 30 سے زائد ممالک کی کرنسی جبکہ 8 لاکھ پاکستانی روپے اور ڈیڑھ لاکھ مالیت کے پرائز باؤنڈ برآمد ہوئے۔ ایف آئی اے کے مطابق ملزمان کے قبضے سے بھارتی کرنسی ساڑھے چار ہزار روپے، تھائی بھات 5 ہزار، انڈونیشین کرنسی 6 لاکھ، افغانی 2 ہزار، ویتنام ڈونگ 17 لاکھ، موزمبیق کی کرنسی 8 ہزار، فلپینو 1400، ملائشین رنگٹ ہزار، ایرانی ریال 48 لاکھ، عراقی ریال 3500، رشین منات40، کینیا شینگ600، سعودی ریال 500، قطری ریال 150، سوئس فرینک 50، ناروے50، سائوتھ کوریا 5 لاکھ، جرمن مارک 50، ماپڈوز 500 اور مصری پائونڈ250 برآمد ہوئے۔

اس کے علاوہ کوسٹاریکا 1 ہزار، لیبنز1ہزار، اسرائیل شیقیم 20، نیپالی 900، ہانگ کانگ ڈالر 30، بحرین دینار 3، پائونڈز 30، یورو 20 اور شامی پائونڈ 500 برآمد ہوئے۔ اسی نیٹ ورک کے خلاف انہی دنوں ایک تیسری کارروائی میں بولٹن مارکیٹ ہی سے غیر قانونی طریقے سے پرائز بانڈ کی فروخت کرنے والے ڈیلر کو گرفتار کیا گیا۔ ملزم عارف مصطفی سے 1500، 200 اور 100 کے کئی پرائز بانڈ برآمد ہوئے۔ جبکہ ملزم کے پاس سے لاکھوں روپے کی پاکستانی کرنسی بھی ملی۔

ذرائع کے بقول اس نیٹ ورک کے خلاف تحقیقات میں معلوم ہوا کہ پرائز بانڈ مارکیٹ میں بانڈز کا کاروبار کرنے والے کرنسی کی غیر قانونی خرید وفروخت میں بھی ملوث تھے۔ اور یہی افراد کئی سرکاری افسران، سیاستدانوں اور بزنس مینوں کو منی لانڈرنگ کی خدمات بھی فراہم کر رہے تھے۔ تفتیش میں ایسے 10 نام سامنے آئے جنہوں نے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری، گرفتار ہونے والے بھائیوں رضوان، عمران اور ان کے حوالہ ایجنٹ ساتھی سلمان کے پاس کر رکھی تھیں اور ماہانہ منافع کما رہے تھے۔

ان افراد کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے اور یہ بھی غور کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ ملزمان کے خلاف موثر کارروائیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ انکوائریاں رجسٹرڈ کی جائیں اور اس کے لئے اسٹیٹ بینک سے باقاعدہ کمپلین حاصل کی جاسکیں، تاکہ مقدمات درج کرنے کے بعد ان کے خلاف عدالتی پیروی میں کسی قسم کی خامی باقی رہنے سے ملزمان کو فائدہ نہ مل سکے۔ کیونکہ فارن کرنسی ایکٹ کے تحت ایف آئی اے کے لئے ضروری ہے کہ کسی بھی حوالہ ایجنٹ یا کرنسی ایجنٹ کے خلاف کارروائی سے قبل اسٹیٹ بینک کے پالیسی ایکسچینج ڈپارٹمنٹ سے تحریری کپلین حاصل کرے۔

ان کیسوں میں مدعی اسٹیٹ بینک کے افسران بنتے ہیں، جس میں وہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ مذکورہ شخص فلاں جگہ بیٹھ کر کرنسی کا غیر قانونی لین دین کررہا ہے، حالانکہ اس کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے لائسنس جاری نہیں ہوا۔